Mazhar-ul-Quran - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم ان کو بھی روزی دیتے ہیں اور تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور بیشک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے
حقوق العباد میں رخنہ ڈالنے والی چیزوں کا ذکر اور کامیاب زندگی کا جامع اصول ان ا آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ زنا کو فحش اور برا راستہ کہا ہے۔ اس کی وجوہ ظاہر ہیں، اول تو اس میں اختلاط نسب ہے دوسرے جو بچہ اس بری صورت سے پیدا ہوا اس کے نفقہ کا کون ذمہ دار ہوگا اور بعض وقت جانیں بھی جاتی رہتی ہیں۔ عورت سے مقصود صرف شہوت رانی نہیں بلکہ اصلی مطلب یہ ہے کہ باہم مل کر خانہ داری میں ایک دوسرے کا معین (مدد گار) ہو بیماری میں بڑھاپے میں ایک دوسرے کا ساتھ دے، زنا میں یہ بات ممکن نہیں ، زنا کو قطعی حرام ٹھہرایا۔ یہاں تک کہ تاکید کی کہ اس کے پاس جانے کی بھی ممانعت کردی۔ (1) پھر فرمایا کہ جس قتل کا کرنا شریعت میں منع لکھا ہے، اس کو قتل مت کرو۔ جو شخص کہ مظلوم مارا جائے اس کے وارث کو اللہ نے قدرت دی ہے کہ وہ اس کا بدلہ لے اور بدلہ شریعت میں جان کا بدلہ جان ہے یا دیت یعنی خون بہا۔ پس وارث کو چاہیے کہ قتل میں کچھ زیادتی نہ کرے یعنی قتل کرنے کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں، ناک کان وغیرہ نہ کاٹے اور قاتل کے سوائے دوسرے کو نہ مارے کیونکہ ولی کو اللہ کی طرف سے مدد ملی ہے، پھر اس کو اللہ کے حکم کے خلاف بدلہ نہ لینا چاہیے۔ (2) پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ مگر ہاں ولی کو محتاجگی کی صورت میں نگہبانی کی اجرت لینی جائز ہے اسی طرح مزدوری وتجارت میں بھی یتیم کا مال صرف کرنا جائز ہے اور یہ اختیارات ولی کو اس وقت تک ہیں جب تک کہ یتیم جوان صاحب تمیز نہ ہوجائے۔ (3) پھر فرمایا کہ تم کو لازم ہے کہ عہد کو پورا کیا کرو، یہاں عہد سے مراد وہ عہد ہیں جو شرعی طور پر ہوں اور شرع کی مخالف باتوں میں عہد کرنا اور اس کا پورا کرنا دونوں گناہ ہیں۔ (4) پھر فرمایا کہ تم کسی چیز کو ناپ کردیا کرو تو ناپ پوری ہوا کرے اور سیدھی ترازو اور پورے بٹوں سے تولا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ معاملات میں دغا بازی نہ کیا کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ اور عاقبت کی رو سے عاقبت کے لحاظ سے بہت خوب بات ہے۔ (5) پھر فرمایا کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو یعنی جس کو آنکھ سے نہ دیکھا ہو، کان سے نہ سنے اس کی گواہی نہ دے۔ (6) پھر فرمایا اس میں شک نہیں کہ قوت سامعہ اور قوت باصرہ اور دل سے قیامت میں پرستش سے ہوگی کہ تم جس کے آنکھ ، کان ہو ان سے کیا معاملہ کیا تھا "۔ کان سے سوال ہوگا کہ تو نے کیا سنا اور کیوں سنا۔ آنکھ سے پوچھا جائے گا کہ تو نے کیا دیکھا اور کیوں دیکھا ، دل سے پوچھا جائے گا کہ تو نے کیا جانا اور کیوں جانا۔ (7) پھر فرمایا کہ زمین پر اکڑ کر نہ چل کیونکہ تو عاجز ہے۔ اس زمین کو پھاڑ نہ ڈالے گا ، بلند ہو کر پہاڑوں کے برابر نہ ہو سکے گا یہ سب باتیں مکروہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں فرماتا اور ان کی ممانعت کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کامل سے فرمایا ہے۔ (8) پھر فرمایا کہ اللہ کا شریک کسی اور کو نہ بنانا۔ شرک کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان جہنم میں پشیمان اور ذلیل ہو کر ذالا جائے گا۔
Top