Mazhar-ul-Quran - Al-Hijr : 67
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَجَآءَ : اور آئے اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : شہر والے يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے
اور (یہ باتیں ہورہی تھیں کہ) شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے
جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو یہ خبر ہوگئی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں دو تین مہمان آئے ہیں تو وہ لوگ دوڑتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر آئے اور ان مہمانوں کی نوعمری اور خوبصورتی کی خبر سن کر اپنے جی میں بہت خوش ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ لوگ میرے عزیز مہمان ہیں ان کی طرف کسی قسم کا بر خیال نہ کرو اور میری رسوائی نہ چاہو اور خدا سے ڈرو کسی کی آبرو کے پیچھے پڑنے سے کیا حاصل۔ کیوں میری عزت کے درپے ہورہے ہو، ان کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے تم کو منع نہیں کر رکھا ہے کہ تم کسی کی حمایت نہ لو۔ تم کسی کو کیوں اپنا مہمان بناتے ہو۔ پھر حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ تمہیں لڑکوں کے ساتھ فعل بد کے مرتکب ہونے میں شرم نہیں آتی لو یہ قوم کی لڑکیاں حاضر ہیں ان سے نکاح کرلو۔ خدا نے عورتوں کو مردوں کے واسطے پیدا کیا ہے ان سے نفع اٹھاؤ اور لڑکوں کی رغبت چھوڑ دو ان کے ساتھ بدفعلی کرنے کی عادت سے کیوں اپنے کو ہلاک کرنا چاہتے ہو۔ جب ان لوگوں نے حضرت (علیہ السلام) کی نصیحت نہ سنی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس جانے اور ملمانوں کو چھین لینے کا ارادہ کیا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ایک پر مار کر ان سب کو اندھا کردیا۔ یہ لوگ صبح کو پھر آنے کی دھمکی کے کر وہاں سے چلے گئے اور صبح ہلاک ہوگئے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی خبر دیتا ہے کہ اے ہمارے محبوب ﷺ ہم تمہاری حیات اور عمر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی بدمستی میں بےہوش ہورہے تھے وہ کب کسی کی سنتے۔
Top