خواص سورة فاتحہ
الحمد شریف چالیس بار پڑھ کر پانی پر دم کرکے بخار والے کے منہ پر چھینٹا دیں انشاء اللہ تعالیٰ بخار جاتا رہے گا۔ سورة فاتحہ کو چینی کے پاک برتن پر مشک و زعفران سے لکھ کر اگر مریض کو پلا دیں تو ہر قسم کے جسمانی مرض انشاء اللہ تعالیٰ جاتے رہیں گے۔ چیچک کے واسطے گیارہ مرتبہ اس سورة کو پڑھ کر دم کرنا مجرب ہے۔ الحمد شریف ہر روز صبح کی سنتوں کے بعد اور فرضوں سے پہلے اکتالیس مرتبہ پڑھنا موجب برکت ہے اور ہر کام کے لیے مفید ہے۔ اس کو پڑھ کر جو دعا مانگے گا وہ انشاء اللہ تعالیٰ قبول ہوگی۔
فضائل القرآن۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قرآن میں سب سے زیادہ عظمت سورة فاتحہ کی ہے۔ جس کی مثل نہ توریت میں نہ انجیل میں اور نہ زبور میں ہے۔ اگر کوئی تنہا نماز پڑھے تو اس کو سورة فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بغیر سورة فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ اگر امام موجود ہے تو مقتدی کو خاموش رہنا چاہیے۔ کیونکہ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے۔ سورة فاتحہ کے بہت سے فضائل ہیں۔ یہ سورة عرش کے خزانے کے نیچے سے اتری ہے۔
مسئلہ : جو شخص ضاد کو ظا پڑھے یعنی غیر المغظوب تو اس کی امامت جائز نہیں (محیط برہانی)
مسئلہ : آمین کے معنی ہیں : ایسا ہی کر، یا قبول فرما، یہ کلمہ قرآن کا نہیں ہے، سورة فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے نماز کے اندر بھی اور باہر بھی۔ امام اعظم (رح) کا قول ہے کہ نماز میں آمین آہستہ کہے۔
تفسیر سورة فاتحہ :
(1) اس سورة کو فاتحہ کہتے ہیں، اس سورتہ کے نام اور بھی حدیث میں آئے ہیں مگر سورة فاتحہ زیادہ مشہور ہے ۔ اس سورة کی اول کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور آخر کی آیتوں میں بندوں کی طرف سے بارگاہ الہی میں دعا ہے ۔ اسی واسطے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھ میں اور میرے بندوں میں اس سورة کی نصفا نصفی کی تقسیم ہے۔ الحمد للہ حمد کے معنی زبان سے تعریف کرنے کے ہیں، پس سب تعریف اللہ کے لیے ہے ۔ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام عالم کا پرورش کرنے والا ہے پس کوئی چیز اس کی تربیت اور پرورش سے خالی نہیں۔ الرحمن الرحیم صاحب رحمت کے معنوں میں، یہ دونوں بھی اللہ کے نام ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سب بندوں پر مہربان ہے اور وہ خاص مسلمانوں کو روز قیامت بخشے گا۔ اور اپنا رحم ان پر کرے گا۔ مالک یوم الدین جس کے یہ معنی ہیں کہ مالک ہے روز جزا کا یعنی وہ مالک جس کو ہر طرح کے تصرف کا اختیار ہو۔ پس قیامت کے دن ہر طرح کی جزا و سزا کا اختیار خاص اللہ کی ذات کو ہے ، اس واسطے اپنے آپ کو اس دن کا مالک فرمایا۔ ایاک نعبد شروع سورة سے یہاں تک حمد و ثنا کا ذکر تھا اور حمد و ثنا ممدوح کی غائبانہ حالت میں اعلی درجہ کی حمد و ثنا کہلاتی ہے اس لیے یہاں تک غائب کے صیغے تھے ۔ اس آیت سے دعا کی حالت شروع ہوئی اور دعا میں عاجزی مناسب ہے ، اس واسطے اللہ تعالیٰ نے طرز کلام کو بدل دیا ایاک نعبد کے معنی یا اللہ سوائے تیری ذات کے اور کسی کی عبادت ہم نہیں کرتے کیونکہ تو نے ہی ہم کو پیدا کیا اور تیری ہی ہدایت سے ہم کو عبادت کی توفیق ہوگئی۔ وایاک نستعین یا اللہ ہماری قابل قبول عبادت میں شیطان کا وسوسہ اور خواہش نفسانی ہر طرح سے خارج ہے ۔ اس لیے ہم تیری ذات پاک سے قابل قبول عبادت کے ادا ہونے کی مدد چاہتے ہیں۔ اھدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کے معنی : یا اللہ جس طرح تو نے اپنے فضل سے ہم کو اسلام کے راستہ پر لگایا ہے اسی طرح تا قیامت ہم کو اسی راستہ پر قائم اور ثابت قدم رکھ، کیونکہ یہ راستہ انبیاء اور ایسے کامل دینداروں کا ہے جن پر تو نے اپنی طرح طرح کی دین و دنیا کی نعمتیں ختم کی ہیں اور پچھلی امتوں کے جو لوگ راہ راست سے بہک گئے ہیں ان کی اسی گمراہی کے سبب سے ان سے ناراض اور ان پر تیرا غصہ ہے ان کی چال اور روش سے ہم کو بچا۔ (آمین)