Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 4
یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں میں سے وَيُؤَخِّرْكُمْ : اور مہلت دے گا تم کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت تک اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت اِذَا جَآءَ : جب آجاتا ہے لَا يُؤَخَّرُ : تو ڈھیل نہیں دی جاتی۔ تاخیر نہیں کی جاتی لَوْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور (موت کے) وقت مقررہ تک تم کو مہلت عطا کرے گا۔ جب خدا کا مقرر کیا ہوگا وقت آجاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی۔ کاش تم جانتے ہوتے
یغفرلکم . ایمان و اطاعت مغفرت کا سبب ہے اس لیے یہ جملہ امر مذکور کا جواب ہے یعنی اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہاری مغفرت کر دے گا۔ حضرت عمرو بن عاص کا قول ہے میں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! دست مبارک پھیلائیے ‘ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور ﷺ نے دایاں ہاتھ پھیلا دیا۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا ‘ فرمایا : عمرو ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا ‘ کچھ شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا : شرط بیان کرو۔ میں نے عرض کیا : شرط بیعت یہ ہے کہ میرے گناہ بخش دیئے جائینگے۔ فرمایا : عمرو ! کیا تم کو نہیں معلوم کہ اسلام گزشتہ گناہ ڈھا دیتا ہے اور ہجرت بھی پہلے گناہ گرا دیتی ہے اور حج بھی سابق گناہ ساقط کردیتا ہے۔ (مسلم) حضرت معاذ نے بیان کیا کہ میں (ایک سفر) میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا۔ میرے اور حضور ﷺ کے درمیان صرف کجاوہ کا پچھلا حصہ حائل تھا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : معاذ ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا خدا پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کو پورا علم ہے ‘ فرمایا : اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں۔ کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور بندوں کا حق خدا پر یہ ہے کہ وہ غیر مشرک کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا لوگوں کو میں یہ خوشخبری نہ سنا دوں ؟ فرمایا : لوگوں کو یہ بشارت نہ دو ورنہ وہ (اسی پر) بھروسہ کر بیٹھیں گے (بخاری و مسلم) حضرت انس ؓ سے بھی اسی قسم کا واقعہ منقول ہے۔ حضرت معاذ ؓ نے (اخفاءِ حق کے) گناہ سے بچنے کے لیے مرنے کے وقت یہ حدیث بیان کی تھی۔ (مسلم و بخاری) من ذنوبکم . مِنْ بیانیہ ہے (یعنی تمہارے گناہ بخش دے گا) یا تبعیضیہ ہے (یعنی تمہارے گناہ معاف کر دے گا) مراد یہ ہے کہ اللہ وہ گناہ معاف کر دے گا جو محض حق خدا سے تعلق رکھتے ہیں (بندوں کی باہمی حق تلفیوں کو معاف نہیں کرے گا) ۔ و یوخرکم الی اجل مسمی . یعنی ایمان و اطاعت کی شرط پر اللہ تم کو معاف کر دے گا اور گناہوں کی سزا اس مدت تک تم کو نہ دے گا جو تمہارے لیے مقرر کردی گئی ہے۔ مسئلہ قضاء کی دو قسمیں ہیں : 1) قضاء مبرم (قطعی ناقابل فسخ) ‘ 2) معلق ‘ معلق کی صورت مثلاً یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ زید اگر اللہ کی اطاعت کرے گا تو اتنی مدت تک اس کو تباہی سے محفوظ رکھا جائے گا اور نافرمانی کرے گا تو اللہ اس پر طوفان مسلط کر دے گا۔ قضاء معلق کی تبدیلی جائز ہے۔ جب شرط مفقود ہو (تو حکم قضاء بھی نافذ نہ ہوگا) آیت : یمحوا اللہ ما یشآء و یثبت و عندہ ام الکتٰب کا یہی مطلب ہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دعا کے سواء قضاء کو کوئی چیز نہیں لوٹاتی اور عمر میں زیادتی نیکی ہی سے ہوتی ہے۔ (ترمذی) قضاء مبرم ناقابل تبدیل ہے۔ آیت : لا تبدیل لکلمٰت اللہ سے یہی مراد ہے 1 ؂۔ ان اجل اللہ اذا جاء لا یوخر . اللہ کی مقرر کی ہوئی اجل جب مقررہ طریقہ سے آجاتی ہے تو اس کو ٹالا نہیں جا ............ 1 ؂ قضاء مبرہم اصلی اور حقیقی قضاء ہے۔ قضاء معلق کو قضاء کہنا مجازاً ہے۔ اس کا تعلق ارادۂ انسانی سے ہے۔ حقیقت میں یہ قضاء ہی نہیں ہے۔ صرف معلق فیصلہ ہے۔ ہاں ! فیصلہ کا جس شرط کے وقوع یا عدم وقوع سے تعلق ہے اس شرط کا واقع ہونا یا نہ واقع ہونا قضاء مبرم ہے۔ مثلاً زید زہر کھائے گا تو 24 گھنٹہ کے اندر مرجائے گا۔ یہ قضاء معلق یا قضاء مشروط ہے لیکن زید کا زہر کھانا یا نہ کھانا مقدر ہوچکا ہے۔ یہ تقدیم مبرم ہے تمام نتائج اور مسببات کی اسباب سے وابستگی اور اسباب و نتائج کی مسلسل زنجیر قضاء معلق کی مظہر ہے ‘ دھوکہ کھا کر مادہ پرستوں نے انہی اسباب کو نتائج کا خالق اور مؤثر حقیقی سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ حقیقی ناقابل شکست وابستگی نہیں بلکہ اسباب ظاہرہ دوامی طور پر نتائج پیدا نہیں کرتے کبھی اسباب ظاہرہ موجود ہوتے ہیں اور نتیجہ مفقود ہوتا ہے۔ ہاں ! ان اسباب کی حاکم اور حسب منشاء اثر انگیز اور نتیجہ آفریں بنانے والی قضاء مبرم ہے۔ عناصر کے جتنے طبعی خواص کہے جاتے ہیں ‘ ان کی حاکم قضاء مبرم ہے بیشک آگ کی خاصیت جلانا ‘ پانی کی خاصیت روانی اور ہوا کی خاصیت دوانی ہے اور خالق کائنات نے ان کو یہ خصوصیات عطا کی ہیں لیکن یہ قضاء مبرم نہیں ‘ قضاء معلق ہے جس میں تبدیلی ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے کہ آگ نہ جلائے ‘ پانی رواں نہ ہو اور ہوا جامد ہوجائے۔ انقلاب عنصری کے تو فلاسفر بھی قائل ہیں اور یہ تغیر ہے بھی بدیہی مگر اسلام قائل ہے کہ عناصر متاثرہ ہوں یا ان کی مؤثرہ طاقتیں ہوں سب قضاء مبرم کے زیر حکم ہیں۔ سکتا۔ اس میں تاخیر کی جانی ممکن نہیں۔ مبرم میں تو کبھی تاخیر نہیں ہوتی اور معلق میں بھی اس وقت تاخیر ممکن نہیں جب اس کی شرط موجود ہوگئی ہو اس لیے اجل قطعی کے آنے سے پہلے مہلت اور فرصت کے اوقات میں طاعت کی طرف پیش قدمی کرنا لازم ہے۔ ایسے گناہ نہ کرو جو موجب عذاب اور اجل معلق ان سے وابستہ ہے۔ سوال اہل سنت کا مسلک ہے کہ اجل ایک ہے ‘ نہ بڑھتی ہے ‘ نہ گھٹتی ہے۔ یہاں تک کہ مقتول بھی اپنی اجل پر مرتا ہے۔ رہی وہ حدیث جس میں نیکی کو زیادتی عمر کا سبب بتایا گیا ہے تو اس میں عمر کی زیادتی سے مراد ہے عمر کی برکت یعنی کثرت ثواب اجل کی کمی بیشی کا قول تو معتزلہ فرقہ کے مذہب کے موافق ہے۔ جواب معتزلہ تو تقدیر کے بالکل منکر ہیں۔ قاتل کو مقتول کی موت کا خالق مانتے ہیں۔ ہم نے قضاء کا مفہوم اہل سنت کے مسلک کے موافق بیان کیا ہے۔ اہل سنت جو کہتے ہیں کہ اجل ایک ہے ‘ نہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ اس سے مراد ہے قضاء مبرم جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ مقتول اسی قضاء مبرم سے مرتا ہے ‘ یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوح محفوظ میں مقتول کی موت معلق ہو کہ اگر اس کو فلاں شخص قتل کر دے گا تو مرجائے گا ورنہ نہیں مرے گا لیکن لوح محفوظ میں قضاء مبرم کے طور پر یہ بھی درج ہوگا کہ فلاں وقت فلاں شخص کو ضرور مار ڈالے گا اور اس کی زندگی کی کوئی شرط (سبب ‘ ذریعہ وغیرہ) باقی نہیں رہے گی۔ اس جواب کی تقدیر پر اس حدیث کی تاویل کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی جو ابو خزامہ نے اپنے باپ کی وساطت سے بیان کی ہے۔ ابو خزامہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم کچھ منتردَم کرتے ہیں اور دوا بھی کرتے ہیں اور دوسرے بچاؤ بھی اپنے لیے کرتے ہیں ‘ فرمائیے کہ کیا یہ فعل اللہ کی تقدیر کو کچھ بھی لوٹا سکتا ہے ؟ فرمایا : یہ بھی تو اللہ ہی کی تقدیر سے ہے۔ (احمد ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ) یعنی اللہ نے مقدر کردیا ہے کہ فلاں شخص علاج کرے گا تو اس کو شفاء حاصل ہوگی۔ لو کنتم تعلمون . یعنی اگر تم اہل علم ہو اور اپنے مصالح کو سمجھنے والے ہو (تو میری اطاعت کرو) اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ (قوم نوح کو اگرچہ مرنے میں کوئی شرک نہ تھا لیکن) ان کا خواہشات نفسانی میں ڈوب جانا بتارہا تھا کہ گویا ان کو مرنے میں شک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضرت نوح چالیس سال کی عمر میں پیغمبر ہوئے اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔ مقاتل نے وقت بعثت سو سال کی عمر بتائی ہے۔ بعض نے پچاس برس اور بعض نے دو سو پچاس برس بھی کہا ہے۔ حضرت نوح کی عمر ایک ہزار چار سو پچاس برس ہوئی ہے اور یہ بات تو ناقابل شک ہے کہ ساڑھے نو سو برس تک آپ قوم کو نصیحت کرتے رہے۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ قوم والے حضرت نوح کو اتنا مارتے تھے کہ اپنی دانست میں مردہ سمجھ کر نمدہ میں لپیٹ کر گھر میں ڈال آتے تھے لیکن آپ دوسرے روز پھر باہر تشریف لا کر لوگوں کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے۔ محمد بن اسحاق نے عبید بن عمر لیثی کا قول نقل کیا ہے کہ لوگ حضرت نوح کو پکڑ کر اتنا گلا گھونٹتے تھے کہ آپ بیہوش ہوجاتے تھے لیکن جب ہوش آتا تو دعا کرتے : الٰہی میری قوم کو بخش دے۔ یہ ناواقف ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بار بار گناہوں میں منہمک رہے اور قوم کی طرح سے حضرت نوح پر تکلیفیں شدید ترین ہونے لگیں تو آپ آئندہ نسل کے انتظار میں رہے (کہ شاید ان کی نسل ہدایت یاب ہوجائے) مگر جو نسل آتی تھی وہ اگلوں سے زیادہ خبیث ہوتی تھی۔ سلف ‘ خلف سے کہہ مرتے تھے کہ یہ شخص دیوانہ ہے ہمارے باپ ‘ دادا کے ساتھ بھی رہا ہے ‘ اس طرح کوئی آپ کی بات نہیں مانتا تھا۔ بالآخر حضرت نوح نے اللہ سے شکایت کی اور عرض کیا :
Top