Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 13
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو لَا تَرْجُوْنَ : نہیں تم امید رکھتے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَقَارًا : کس وقار کی
تم کو کیا ہوا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے
مالکم لا ترجون للہ وقارا . ما استفہامیہ ہے وقار ‘ عظمت ‘ توقیر سے اسم مصدر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد ؓ کے نزدیک رجاء کا معنی ہے اعتقاد یعنی تم اپنے اعتقاد میں اللہ کی عظمت نہیں جانتے۔ رجاء (اُمید) تو ادنیٰ ظن کے تابع ہوتی ہے (یعنی کسی بات کے ہونے کا ذرا سا بھی گمان غالب ہوجاتا ہے تو اس کی امید ہوجاتی ہے) لیکن یہاں اعتقاد کو رجاء فرمایا یہ محض کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے (یعنی خدا کی عظمت تمہارے عقیدہ میں تو بہرحال نہیں ہے اور عقیدہ کیا تمہارے ظن میں بھی نہیں ہے) کلبی نے آیت کا معنی بیان کیا تم اللہ کی عظمت سے نہیں ڈرتے گویا کلبی کے نزدیک رجاء اس جگہ بمعنی خوف ہے۔ حسن بصری نے آیت کی تفسیر اس طرح کی تم اللہ تعالیٰ کا حق نہیں پہچانتے اور اس کی نعمت کا شکر نہیں کرتے۔ ابن کیسان نے کہا : تم کو اپنی عبادت میں اس بات کی امید نہیں کہ ہم جو خدا کی تعظیم کرتے ہیں ‘ خدا اس کا ثواب بھی دے گا۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنی عبادت میں تم کو اس امر کی امید نہیں ہے کہ خدا تمہاری عبادت کی قدر دانی اور تمہارا اکرام کرے گا۔
Top