Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 11
یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ
يُّرْسِلِ : بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان کو عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : خوب برسنے والا (بنا کر)
وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا
یرسل السماء . یعنی بارش علیکم مدرارا . مدرارًا (بکثرت بارش والا) السمآء سے حال ہے یہ مذکر کی صفت بھی ہوسکتا ہے اور مؤنث کی بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار معصیت ‘ نزول بارش ‘ حصول نعمت اور عموماً دفع مصیبت کا سبب ہے یا خصوصیت کے ساتھ صرف اس مصیبت کے دفع کا سبب ہے ‘ جس میں مبتلا ہونے کی وجہ گناہوں کی نحوست ہو جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا حال تھا اور اسی کی تائید آیت : ما اصابکم من مصیبۃ فیما کسبت ایدیکم سے ہوتی ہے لیکن اگر نزول مصیبت ترقی درجات کا سبب ہو تو ایسی مصیبت استغفار سے دفع نہیں ہوتی جیسے حضرت ایوب (علیہ السلام) اور بعض دوسرے انبیاء کی مصیبتیں تھیں۔ حضرت سعید کی روایت ہے ‘ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ کڑی مصیبت انبیاء کی ہوتی ہے۔ انبیاء کے بعد ان لوگوں کی جو باقی لوگوں سے افضل ہوں پھر ان لوگوں کی جو بقیہ سے افضل ہوں۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مرتبہ کے موافق ہوتی ہے اگر وہ دین میں پختہ ہے تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے اور اگر اس کے دین میں کچھ کمزوری ہے تو درجہ دینی کے موافق اس کی آزمائش ہوتی ہے صرف عہد کرنے سے بلاء نہیں ٹلتی۔ جب تک گناہ کو چھوڑ نہ دے اور گناہ سے پاک ہو کر زمین پر چلنے نہ لگے۔ (احمد ‘ بخاری ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ) بخاری (رح) نے اپنی تاریخ میں کسی امّ المؤمنین کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے کڑی مصیبت والا نبی ہوتا ہے یا صفی (یعنی ولی) حاکم نے مستدرک میں اور ابن ماجہ نے اور عبدالرزاق نے حضرت ابو سعید ؓ وغیرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنے تم عطیہ ملنے سے خوش ہوتے ہو ‘ انبیاء مصیبت پر اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بارش نہ ہونا ایک عمومی مصیبت ہے ‘ جو عمومی گناہوں کی نحوست سے ہی آتی ہے۔ معصیت عوام کے بغیر اس مصیبت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا اس صورت میں استغفار عمومی بارش کا سبب قرار پائے گا۔ استسقاء میں استغفار کی مشروعیت اسی وجہ سے ہے۔ مطرفؔ نے شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ ایک بار حضرت عمر ؓ لوگوں کو لے کر دعاء بارش کے لیے شہر سے باہر نکلے لیکن صرف استغفار کے بعد لوٹ آئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا (یعنی نماز نہیں پڑھی) عرض کیا گیا : ہم نے سنا تھا کہ آپ بارش کی دعا کریں گے (مگر آپ نے صرف استغفار پر اکتفاء کیا) فرمایا : میں نے بارش کی دعا ان سرچشموں (یا راستوں) سے کی جن سے آسمان کی بارش ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ نے آیت : استغفروا ربکم انہ کان غفارا یرسل السمآء علیکم مدرارًا تلاوت کی۔
Top