Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اس لیے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بےانصافی کرتے تھے
ومن خفت موازنیہ فاولئک الذین خسروا انفسہم بما کانوا بایتنا یظلمون : اور جن (کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوں گے سو وہ لوگ وہی ہوں گے جنہوں نے خود اپنا نقصان کرلیا ہماری آیتوں کی حق تلفی کرنے کے سبب۔ موازین سے اس جگہ بھی نیکیاں یا نیکیوں کا پلڑا مراد ہے۔ بظاہر اس آیت کے عموم میں بدکار کافر بھی داخل ہیں اور مؤمن بھی جن کی بدیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے سے بھاری ہو لیکن اس جگہ صرف کفار مراد ہیں کیونکہ قرآنی بیان کا اسلوب ہی یہ ہے کہ نیکو کار مومنوں کے مقابلہ میں کافروں کا تذکرہ کرتا ہے باقی جو مسلمان مخلوط الاعمال ہیں نیکیاں بھی کرتے ہیں اور بدیاں بھی ان کا ذکر عموما نہیں کیا جاتا۔ الذین خسروا سے یہ مراد ہے کہ ان لوگوں نے اپنی پیدائشی فطرت سلیمہ کو کھو دیا اور عذاب آفریں اعمال کا ارتکاب کیا اور آیات کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کرنے لگے اس طرح آیات کے ساتھ ظلم کیا سورة القارعہ کی آیت : (فمن ثقلت موازنیہ فہو فی عیشۃ راضیۃ و اما من خفت موازنیہ فامہ ہاویۃ) کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے حاضر الذکر آیت کے مضمون کی تشریح کردی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وفات کے وقت حضرت عمر ؓ فاروق کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا قیامت کے دن جس کی میزان بھاری ہوگی وہ صرف اس وجہ سے بھاری ہوگی کہ دنیا میں وہ کا اتباع کرتا تھا جس میزان میں کل حق کو رکھا جائے گا اس کو بھاری ہونا ہی چاہئے اور جس کی میزان قیامت کے دن ہلکی ہوگی اس کے ہلکے ہونے کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ وہ دنیا میں باطل کا اتباع کرتا تھا اور جس میزان میں باطل کو رکھا جائے گا اس کو ہلکا ہونا ہی چاہئے۔ میں کہتا ہوں اس میں میزان سے مراد ہے نیکیوں کا پلڑا اور باطل سے مراد ہیں وہ باطل عقائد و اعمال جن کو اہل باطل نیکیاں سمجھتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک وہ سراسر کفریات اور بدعات ہیں اللہ کے نزدیک ان کا کوئی وزن نہیں جیسے لق و دق بیابان میں سراب جس کو دور سے دیکھنے والا پیاسا پانی سمجھتا ہے اور قریب جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اسی طرح کافر اور مبتدع کو اللہ کے پاس جا کر کچھ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوری پوری حساب فہمی کرے گا۔
Top