Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 93
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : سے۔ جو افْتَرٰي : گھڑے (باندھے) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ : یا قَالَ : کہے اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف وَلَمْ يُوْحَ : اور نہیں وحی کی گئی اِلَيْهِ : اس کی طرف شَيْءٌ : کچھ وَّمَنْ : اور جو قَالَ : کہے سَاُنْزِلُ : میں ابھی اتارتا ہوں مِثْلَ : مثل مَآ اَنْزَلَ : جو نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذِ : جب الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) فِيْ غَمَرٰتِ : سختیوں میں الْمَوْتِ : موت وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَاسِطُوْٓا : پھیلائے ہوں اَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھ اَخْرِجُوْٓا : نکالو اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ : آج تمہیں بدلہ دیا جائیگا عَذَابَ : عذاب الْهُوْنِ : ذلت بِمَا : بسبب كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے تھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (بارہ میں) غَيْرَ الْحَقِّ : جھوٹ وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَنْ : سے اٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں تَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے
ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اور اس شخص سے بڑھ کر بےجا حرکت کرنے والا کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت تراشی کرتا ہے جیسے مالک بن الضیف جو کہتا تھا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نازل نہیں کیا۔ یا جیسے عمرو بن لحی اور اس کے پیرو جو کہتے تھے کہ اللہ نے سائبہ اور حام کو حرام کردیا ہے اور بعض قسم کے اونٹوں پر سوار ہونا اللہ کی طرف سے ناجائز کردیا گیا ہے اور ان جانوروں کے پیٹ کے بچے اگر زندہ برآمد ہوں تو مردوں کے لئے حلال ہیں عورتوں کے لئے حرام اور اگر مردہ برآمد ہوں تو سب کے لئے حلال ہیں۔ او قال اوحی الی ولم یوحر الیہ شی یا کہتا ہے کہ میرے پاس وحی آئی ہے حالانکہ اس کے پاس بالکل وہی نہیں آئی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ برقول قتادہ اس آیت کا نزول مسیلمہ کذاب کے حق میں ہوا۔ یہ شخص کاہن تھا اور کاہنوں کی طرح کچھ مسجع فقرے بولتا تھا اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے۔ ابن جریر نے عکرمہ کا بھی یہی بیان نقل کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس نے دو قاصد بھیجے تھے۔ حضور ﷺ نے قاصدوں سے دریافت کیا۔ کیا تم مسیلمہ کو نبی مانتے ہو قاصدوں نے کہا جی ہاں حضور ﷺ نے فرمایا اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا دستورنہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا۔ بغوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں سو رہا تھا سونے کی حالت میں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئیں اور سونے کے دو کنگن میرے دونوں ہاتھوں میں ڈال دیئے گئے مجھے اس سے بڑی ناگواری اور رنج ہوا تو مجھے وحی کی گئی کہ ان دونوں پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری کنگن فوراً غائب ہوگئے میں نے اس کی تعبیر دی کہ دونوں کنگنوں سے مراد دو کذاب ہیں ایک صنعا (یمن) والا دوسرا یمامہ والا۔ صنعاء والے سے حضور کی مراد اسود عنسی اور صاحب یمامہ سے مراد مسیلمہ کذاب تھا (ان دونوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا) ومن قال سا نزل مثل ما انزل اللہ اور وہ جو کہتا ہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے ایسا میں بھی لاتا ہوں۔ برقول بغوی اس آیت کا نزول عبداللہ بن ابی سرح کے حق میں ہوا ہے عبداللہ مسلمان ہوگیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا کاتب تھا لیکن (قرآن میں جس جگہ) حضور ﷺ سمیعاً بصیراً لکھواتے وہ علیماً حکیماً لکھتا اور جہاں علیماً حکیماً لکھواتے وہاں وہ غفوراً رحیماً لکھتا تھا جب آیت (ولقد خلقلنا الانسان من سلالۃ من طین) نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے یہ آیت لکھوائی تو عبداللہ کو تخلیق انسانی کی یہ تفصیل بہت پسند آئی اور وہ فوراً بول اٹھا : (فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین) حضور ﷺ نے فرمایا (آگے) یہ بھی لکھ دو یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ عبداللہ کے دل میں شک پیدا ہوگیا اگر محمد ﷺ (وحی کے دعوے میں) سچے ہیں تو جس طرح ان کے پاس وحی آتی ہے میرے پاس بھی آگئی (میں بھی نبی ہوگیا) اور اگر جھوٹے ہیں تو پھر جس طرح وہ کہتے ہیں۔ میں نے بھی کہہ دیا (نہ خدا کا کلام ان کا نہ میرا) اس کے بعد وہ مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ ابن جریر ؓ نے عکرمہ اور سدی کی روایت سے بھی آیت : (تبارک اللہ احسن الخالقین) کے سلسلہ میں یہی قصہ بیان کیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب رسول اللہ ﷺ مرالظہران میں فروکش تھے عبداللہ دوبارہ اسلام لے آیا تھا حافظ فتح الدین ابن سید الناس نے سیرت میں لکھا ہے کہ ابن ابی سرح نے حضرت عثمان ؓ بن عفان کی سفارش کرائی تھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کی سفارش کو قبول فرما لیا اس کے بعد عبداللہ ؓ : کا اسلامی کیرکٹر اچھا رہا کسی نے اس کے اسلام پر کوئی خوردہ گیری نہیں کی آخر سجدہ کی حالت میں عبداللہ کا انتقال ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے آیت : (سَاُنْزِلَ مِثْلَ مَا اَنْزَل اللّٰہ) کے متعلق فرمایا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو ٹھٹول (تختہ مشق ‘ 12) بناتے تھے اور لو نشاء لقلنا مثل ہذا کا یہ جواب ہے۔ میں کہتا ہوں اس سے مراد نضر بن حارث ہے جو سورة والنازعات غرقاً کے مقابلہ میں (بطور استہزاء) والطاحنات طحناً والعاجنات عجنا والخابزات خبزاً کہتا تھا (قسم ہے آٹا پیسنے اور گوندھنے اور روٹی پکانے والیوں کی) ولو تری اذا الظلمون فی غمرات الموت اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جبکہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے۔ تریکا خطاب رسول اللہ ﷺ : کو ہے اور الظلمین مفعول محذوف ہے۔ الظلمون میں الف لام یا عہدی ہے اور مراد ہے یہودی اور نبوت کے جھوٹ دعویدار اور کلام اللہ سے استہزاء کرنے والے۔ یا الف لام جنسی ہے ان سب کو بھی شامل ہے اور دوسرے ظالموں (کافروں کو بھی لو حرف شرط ہے تریاس کی شرط ہے اور جزا محذوف ہے یعنی اگر آپ ظالمون کی حالت دیکھیں گے تو آپ کو ہیبت ناک منظر دکھائی دے گا۔ غَمَراتکا معنی ہے شدائد۔ یہ غمرۃ کی جمع ہے قاموس میں ہے غمرۃ الشئ کسی چیز کی شدت۔ وضعی معنی ہے ڈھانکنا غمرہ المائ اور اغْتَمَرُہ الْمَاءُاس کو پانی نے ڈھانک لیا ‘ اس کے بعد شدائد اور مصائب کے لئے اس لفظ کا استعمال کیا جانے لگا (کیونکہ شدائد بھی انسان کو محیط ہوجاتی ہیں اور ہر طرف سے چھا جاتی ہیں) صحاح میں ہے غمرکا اصل وضعی معنی ہے کسی چیز کے اثر کو زائل کردینا آب کثیر کو غمر اسی مناسبت کی وجہ سے کہتے ہیں۔ صاحب صحاح کی تحقیق کے بموجب آیت میں موت کی جانب غمرات کی اضافت بیانیہ ہوگی شدت موت کو غمرہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ موت زندگی کا اثر مٹا دیتی ہے۔ والملائکۃ باطسوا ایدیہم اخرجوا انفسکم اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے (اور کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو۔ یہ جملہ حالیہ ہے اور ضمیر کا مرجع محذوف ہے یعنی سختی کے ساتھ تقاضا کرنے والے قرض خواہ کی طرح جھڑک کر اور درشتی کے ساتھ روحوں کو قبض کرنے یا عذاب دینے کے لئے فرشتے ان سے کہیں گے کہ اپنی جانوں کو جسموں کے اندر سے نکالو یا عذاب سے بچاؤ۔ الیوم آج مرنے کے وقت سے غیر متناہی مدت تک۔ تجزون عذاب الہون تم کو عذاب ذلت کی سزا دی جائے گی ‘ یعنی وہ عذاب دیا جائے گا جس میں ذلت اور شدت ہوگی۔ بما کنتم تقولون علی اللہ غیر الحق کیونکہ تم اللہ پر جھوٹی افترا بندی کیا کرتے تھے۔ اس کو صاحب اولاد کہتے تھے۔ مخلوق کو اس کا شریک قرار دیتے تھے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتے تھے اور باوجود وحی نہ آنے کے کہتے تھے کہ ہماری پاس وحی آئی ہے۔ وکنتم عن ایتہ تستکبرون اور تم اللہ کی آیات یعنی قرآنی آیات یا دلائل توحید سے تکبر کرتے تھے۔ نہ ان پر غور کرتے تھے نہ ان کو مانتے تھے۔ ابن جریر وغیرہ نے عکرمہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نضر بن حارث نے کہا تھا لات اور عزی اللہ کے سامنے ہمارے سفارش کریں گے اس پر مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔
Top