Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لئےمحض نصیحت ہے
اولئک الذین ہدی اللہ یہ ایسے لوگ تھے جن کو اللہ نے ہدایت کی تھی یعنی توحید ‘ اصول دین اور مامورات و منہیات کی پابندی کی ہدایت کردی تھی۔ فبھداہم اقتدہ پس انہی کے طریقہ پر آپ چلیں۔ یعنی دوسروں کے طریقہ پر نہ چلیں۔ اس میں مشرکوں پر تعریض ہے کہ وہ (پیغمبروں کے راستہ پر چلنے کی بجائے) اپنے گمراہ آباء و اجداد کی پیروی کرتے ہیں۔ طریقۂ انبیاء کی پیروی سے مراد ہے طریقۂ انبیاء کو اختیار کرنا ‘ تقلید مراد نہیں ہے اس امت کے کسی مجتہد کے لئے تقلید زیبا نہیں انبیاء خصوصاً سید الانبیاء کا تو ذکر ہی کیا ہے آپ کے لئے تو تقلید جائز ہی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرے انبیاء کی طرح آپ بھی ہدایت کے راستہ پر چلیں اور اس شریعت الٰہی کا اتباع کریں جو تقاضاء عقل کے مطابق ہے اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کا جو طریقہ حق تھا اور عقل نقل کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ ہُدَاہُمْسے مراد عقیدۂ توحید اور دین کے وہ اصول ہیں جو تمام انبیاء کی تعلیم میں مشترک ہیں فروعی مسائل مراد نہیں فروعی مسائل میں تو انبیاء میں تفریق ہے اور ہداہم میں ہدی کی اضافت کل انبیاء کی طرف کی گئی ہے لہٰذا ایسا راستہ ہونا ضروری ہے جو سب کے درمیان مشترک ہو فروعی مسائل میں سب انبیاء کی پیروی ممکن نہیں (کیونکہ فروعی احکام میں انبیاء میں اختلاف ہے) اب یہ کہنا غلط ہے کہ اس آیت میں گزشتہ انبیاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم رسول اللہ ﷺ : کو دیا گیا ہے اور آپ گزشتہ شرائع کے مکلف تھے۔ میں کہتا ہوں تمام انبیاء امر خداوندی کے مکلف تھے اگر سابق فروعی مسائل کو اللہ کی طرف سے منسوخ نہیں کیا گیا تو ان فروعی احکام کی تعمیل بھی سب کے لئے ضروری تھی اور اگر متلو یا غیر متلو وحی کے ذریعہ سے گزشتہ احکام جزئیہ کو منسوخ کر کے جدید احکام نازل کردیئے گئے تو جدید احکام کی تعمیل لازم ہے حاصل یہ کہ تمام انبیاء گزشتہ فروعی احکام کے بھی پابند تھے۔ بشرطیکہ جدید شریعت میں ان کو منسوخ نہ کردیا گیا ہو۔ پس گزشتہ شریعتوں کے فروعی احکام کی تعمیل بھی ہم پر واجب ہے اگر ہماری شریعت میں اللہ نے ان کو منسوخ نہ کردیا ہو۔ اِقْتَدِہمیں ھاء سکتہ ہے (ضمیر نہیں ہے) قل لا اسلئکم علیہ اجرا آپ کہہ دیجئے میں اس تبلیغ یا قرآن کا کسی قسم کا معاوضہ تم سے نہیں مانگتا جس طرح مجھ سے پہلے انبیاء اپنی امتوں سے اجر تبلیغ کے طلب گار نہ تھے جن امور میں اقتداء انبیاء کا حکم دیا گیا تھا ان میں سے یہ اجر کا طلب گار نہ ہونا بھی ہے۔ یہ جملہ بتارہا ہے کہ قرآن حدیث اور فقہ کی تعلیم کا معاوضہ (طلب کر کے) لینا جائز نہیں۔ ان ہو الا ذکری للعالمین یہ تبلیغ یا قرآن تو جن و انس کے لئے محض ایک یادداشت اور نصیحت ہے۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی جس کا نام مالک بن الضیف تھا ‘ مناظرہ کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جھگڑے بازی کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا میں تجھے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے موسیٰ پر توریت نازل فرمائی تھی کیا توریت میں یہ بات تم لکھی ہوئی پاتے ہو کہ موٹے عالم کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ مالک موٹا تھا یہ سن کر غضبناک ہوگیا اور بولا خدا کی قسم اللہ نے کسی انسان پر کوئی حکم نہیں اتارا اس کے ساتھیوں نے جو یہ بات سنی تو بولے ارے (ارے) کیا موسیٰ پر بھی اللہ نے کچھ نہیں اتارا۔ اس پر مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔
Top