Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان کے امن (اور جمعیت خاطر) ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں
الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مہتدون جو لوگ (اللہ پر) ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم آمیز یعنی شرک آلود نہیں کیا انہی کے لئے عذاب سے حفاظت ہے اور وہی حق یا جنت کا راستہ پانے والے ہیں۔ حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کا بیان ہے کہ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں پر بڑی شاق گزری انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کون (باوجود مؤمن ہونے کے) اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا (پھر ہمارے محفوظ رہنے کی کیا شکل ہے) حضور ﷺ نے فرمایا ظلم سے مراد) شرک ہے۔ کیا تم نے لقمان کا وہ قول نہیں سنا جو انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا : (یَا بُنَیَّ لاَ تُشْرِک باللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت ابراہیم نے مشرکوں سے سوال کیا تھا کہ محفوظ رہنے کا مستحق کون ہے۔ مشرکوں کی طرف سے جب کوئی جواب نہیں ملا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خود فرمایا الذین امنوا۔۔ اس صورت میں یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام ہوگا جو اللہ نے نقل فرمایا ہے یا یہ اللہ نے اپنی طرف سے فیصلہ فرمایا اور یہ براہ راست اللہ کا قول ہے۔ ابن ابی حاتم نے بکر بن سوادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک دشمن نے مسلمانوں پر حملہ کر کے ایک مسلمان کو مار ڈالا پھر دوبارہ حملہ کر کے دوسرے مسلمان کو قتل کردیا۔ پھر تیسری مرتبہ حملہ کر کے ایک اور مسلمان کو قتل کردیا پھر (مسلمان ہونے کے ارادہ سے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور) عرض کیا اس حالت میں بھی مجھے اسلام سے فائدہ پہنچ سکتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ہاں وہ شخص فوراً مسلمانوں میں شامل ہوگیا (یعنی مسلمان ہوگیا) پھر اپنے (گزشتہ) ساتھیوں پر حملہ کر کے ایک کو پھر دوسرے کو قتل کردیا پھر تیسرے کو مارا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آیت مذکورہ کا نزول اسی شخص کے حق میں ہوا۔
Top