Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
کہہ دو کہ وہ (اس پر بھی) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں
قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے کوئی عذاب تم پر بھیج دے۔ جیسے قوم نوح قوم عاد اور قوم لوط اور اصحاب الفیل کے ساتھ کیا ہے۔ اومن تحت ارجلکم یا تمہارے پاؤں تلے سے (کوئی عذاب بھیج دے) جیسے قوم نوح کے ساتھ کیا کہ زمین کے اندر سے چشمہ جاری کر کے پانی کے طوفان سے سب کو ڈبو دیا یا فرعون کو غرق کردیا یا قارون کو زمین میں دھنسا دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ و مجاہد (رح) : کا قول ہے کہ عذاب فوق سے ظالم بادشاہ اور تحت ارجلکم سے بد کردار غلام مراد ہیں ضحاک نے کہا فوق و تحت سے بڑے چھوٹے مراد ہیں بعض علماء نے کہا فوقکم سے بارش کو اور تحت ارجلکم سے روئیدگی کو روک لینا مراد ہے۔ او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کی جنگ کا مزہ چکھا دے۔ یَلْبِسْکا معنی ہے یَخِلطُ ۔ شیعًا کا معنی ہے مختلف گروہ جن کے خیالات و خواہشات الگ الگ ہوں۔ باس کا معنی عذاب اور جنگ کے شدائد۔ قاموس۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سے بعض بعض کو قتل کرنے لگیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ جب آیت مذکورہ کا پہلا حصہ (یعنی) قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذابًا من فوقکمنازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : اَعُوْذُ بِوَجہِکَ الکریمجب (اس سے آگے دوسرا حصہ) او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعضنازل ہوا تو آپ نے فرمایا یہ (پہلے عذاب سے) آسان اور سہل ہے۔ رواہ البخاری وغیرہ۔ فائدہ آیت (کے آخری حصہ) کی تعبیر ہجرت سے 35 سال کے بعد نظروں کے سامنے آگئی جب جنگ جمل و صفین میں مسلمان باہم کشت و خون میں مبتلا ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب مسجد بنی معاویہ کی طرف سے گزرے ‘ آپ ﷺ نے مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز ادا کی اور ہم نے بھی نماز پڑھی پھر آپ نے دیر تک دعا کی ‘ دعا کے بعد فرمایا میں نے اپنے رب سے تین باتوں کا سوال کیا تھا ‘ میں نے اس سے درخواست کی تھی کہ میری امت کو (عمومی) غرق (کے عذاب) سے ہلاک نہ کرے (جیسا کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت کے ساتھ کیا) اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی۔ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو (عمومی) کال سے نہ ہلاک کرے۔ اس نے میری یہ دعا بھی قبول فرما لی۔ میں نے سوال کیا کہ میری امت کو باہم جنگ کے عذاب میں مبتلا نہ کرے اللہ نے میری یہ دعا نہ مانی۔ رواہ البغوی۔ عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسجد میں تین دعائیں کیں۔ اللہ نے دو دعائیں تو قبول فرما لیں اور ایک دعا رد فرما دی حضور ﷺ نے اللہ سے دعا کی کہ میری امت پر کسی غیر دشمن کو مسلط نہ فرمائے کہ وہ سب پر چیرہ دستی کرے اللہ نے یہ دعا قبول فرما لی۔ حضور ﷺ نے دعا کی کہ سب امت کو (عمومی پیہم) قحط سالیوں سے ہلاک نہ کرے اللہ نے یہ دعا بھی قبول فرما لی۔ حضور ﷺ نے دعا کی کہ امت کو باہم خانہ جنگی میں مبتلا نہ کرے اللہ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔ رواہ البخاری۔ ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم کا بیان نقل کیا ہے کہ جب آیت : (قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذاب من فوقکم) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بعد لوٹ کر کافر نہ ہوجانا کہ باہم ایک دوسرے کی گردن تلوار سے مارنے لگو صحابہ ؓ نے عرض کیا ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ( کیا اس شہادت کے باوجود ہم ایسا کرسکتے ہیں) ایک شخص بولا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا یعنی ہم سب مسلمان ہیں پھر ایک دوسرے کی گردن مارے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ انظر کیف نصرف الایت لعلہم یفقھون آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ سمجھ جائیں۔ یعنی وعدہ وعید کے مختلف پہلووں سے دلائل بیان کرتے ہیں۔
Top