Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 53
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا١ؕ اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح فَتَنَّا : آزمایا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے لِّيَقُوْلُوْٓا : تاکہ وہ کہیں اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہی ہیں مَنَّ اللّٰهُ : اللہ نے فضل کیا عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْۢ بَيْنِنَا : ہمارے درمیان سے اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِالشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے کہ (جو دولتمند ہیں وہ غریبوں کی نسبت) کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم میں سے فضل کیا ہے (خدا نے فرمایا) بھلا خدا شکر کرنے والوں سے واقف نہیں؟
وکذلک فتنا بعضہم ببعض اور اسی طور پر ہم نے ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے کذلک میں کاف اسی طرح زائد ہے جس طرح لیس کمثلہ شی میں۔ ذلک سے اشارہ سرداران قریش کی گمراہی کی جانب ہے اور فتنا کا مفعول مطلق ہے۔ بعضہم سے مراد ہیں کفار قریش اور ببعض سے مراد ہیں فقراء اہل اسلام جن کی موجودگی اور حاضر باشی سرداران قریش کے اسلام نہ لانے کا سبب بنی۔ ببعض اصل میں ببعضہم تھا (یعنی تنوین مضاف الیہ کے قائم مقام ہے) علامہ تفتازانی نے لکھا ہے کہ اس جگہ کَذَالِکَ فَتَنَّا (اور اسی طرح دوسرے مقامات پر لفظ کذٰلک) اگرچہ تشبیہی ہے لیکن تشبیہ مراد نہیں یا یوں کہا جائے کہ آیت کا معنی اس طرح ہے کہ وہ گمراہی جس میں ہم نے قریش کے سرداروں کو مبتلا کیا ویسی ہی تھی جیسے گزشتہ امتوں میں سے ہم نے بعض کو بعض کی گمراہی کا سبب بنا دیا تھا مثلاً قوم نوح نے کہا تھا : مَا نَرَاک الاَّ بَشَرًا مِّثَلَنَا وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِاور حضرت نوح ( علیہ السلام) نے ان کے جواب میں فرمایا تھا : رَاَ امِا یطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (اس تفسیر پر بعضہم ببعض سے گزشتہ اقوام مراد ہیں اور سرداران قریش کی گمراہی کو گزشتہ اقوام کی گمراہی سے تشبیہ دی گئی ہے جو مطالبہ سرداران قریش نے کیا تھا وہی مطالبہ گزشتہ انبیاء کی بعض امتوں نے کیا تھا اور جس سبب سے سرداران قریش گمراہ ہوئے اسی سبب سے بعض اقوام پارینہ کے سردار گمراہ ہوئے) ۔ بیضاوی نے آیت کی جو تشریح کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذلک سے اشارہ دنیوی آزمائش کی طرف ہے اور فتنا سے مراد ہے دینی ابتلا یعنی جیسے ہم نے دنیوی معاملات میں لوگوں کو مختلف کرکے آزمائش کی ہے کسی کو فقیر بنایا اور کسی کو امیر اسی آزمائش کی طرح ہم نے دینی امور میں بھی لوگوں کو امتحان میں ڈالا ہے اور بعض کو بعض کی آزمائش کا سبب بنایا ہے چناچہ کمزوروں کو سابق الایمان بنا کر سرداروں پر ان کو برتری عطا کی (اور یہ ہی عمل سرداروں کی گمراہی کا سبب بن گیا) لیقولوا اہولاء من اللہ علیہم من نبینا تاکہ یہ لوگ کہا کریں کہ کیا یہی لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے اللہ نے ان پر زیادہ فضل کیا ہے۔ یقولوا کا فاعل اغنیاۂ ہیں اور ہٰوٰلائ سے اشارہ فقراء مسلمین کی جانب ہے۔ انعام سے مراد ہے ہدایت اور توفیق ایمان اہؤلائ میں استفہام انکاری ہے یعنی اغنیاء نے اس امر کا انکار کیا کہ فقراء کو قبول حق کی توفیق مل جائے اور وہ خیر کی جانب اغنیاء سے آگے بڑھ جائیں حاصل مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام حق ہوتا تو ہم اس کی طرف فقراء سے پیش قدمی کرتے اور وہ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے۔ الیس اللہ باعلم بالشکرین کیا اللہ شکر گزاروں سے بخوبی واقف نہیں ہے یعنی جن لوگوں کے اندر شکر گزارہونے کی استعداد ہے جس کی وجہ سے اللہ ان کو شکرگزاری کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور جن لوگوں کے اندر ایمان اور شکر گزاری کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ سے اللہ ان کو توفیق ایمان نہیں دیتا کیا ان دونوں گروہوں سے اللہ واقف نہیں ہے۔ یہ آیت (اس تفسیر کی روشنی میں) دلالت کر رہی ہے کہ (خیر و شر) کی استعداد وجود سے پہلے ہوتی ہے حضرت مجدد الف ثانی (رح) نے اسی لئے فرمایا تھا کہ تعینات اہل ایمان کے مبادی اللہ کے اسم ہادی کا پر تو ہیں اور تعینات کفار کے مبادی اللہ کے اسم مضل کا پر تو (یعنی توفیق ایمان ہو یا ضلالت آفرینی دونوں اللہ کی صفات کے پَر تو ہیں جس پر اللہ کے اسم کا پر تو پڑگیا وہ ہدایت یافتہ ہوگیا اور جس پر اللہ کے اسم مضل کا پر تو پڑگیا وہ گمراہ ہوگیا ‘ پس جس چیز سے اور جس غرض کے لئے جس کو پیدا کیا گیا ہے اس سے تجاوز ناممکن ہے۔ آیت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رذیل فقیر اس قابل ہیں کہ ہم کو تو صحبت رسول حاصل نہ ہو اور صرف ان کو صحبت رسول ﷺ کی نعمت دے کر اللہ سربلند کرے (ایسا نہیں ہوسکتا) اس خیال کو رد کرنے کے لئے اللہ نے فرمایا کیا اللہ شکر گزاروں کو نہیں جانتا پس جو شکر گزار ہیں وہی رسول اللہ ﷺ : کی ہم نشینی کے مستحق ہیں اغنیاء شکر گزار نہیں ہیں اس لئے ان کو صحبت رسول ﷺ : کا استحقاق بھی نہیں ہے۔ بغوی کا بیان ہے کہ حضرت سلمان ؓ اور حضرت خباب بن الارت نے فرمایا اس آیت کا نزول ہمارے سلسلہ میں ہوا اقرع بن حابس تمیمی ‘ عیینہ بن حصن فزاری اور بعض دوسرے لوگ جو مؤلفۃ القلوب (مسلمانوں) میں سے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضور اقدس ﷺ کے پاس بلال ‘ صہیب ‘ عمار ‘ خباب اور کچھ اور کمزور مسلمان بیٹھے ہوئے تھے آنے والوں نے ان بیچاروں (غریبوں) کو دیکھ کر تحقیر کی نظر سے دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ صدر مقام پر تشریف فرما ہوں اور ان لوگوں کو اور ان کے لباس کی بدبو کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھیں گے اور آپ سے کچھ حاصل کریں گے ان غریب مسلمانوں کے پاس اونی چوغے تھے جن سے پسینہ کی وجہ سے بدبو پھیل رہی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں اہل ایمان کو اپنے پاس سے نہیں نکال سکتا۔ کہنے لگے اچھا تو ہمارے لئے الگ جگہ مقرر کر دیجئے کہ (آنے والے) عرب ہماری بڑائی کو پہچان لیں کیونکہ آپ کے پاس عربوں کے وفد آتے رہتے ہیں ہمیں ان کے سامنے غلاموں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ہم جب آپ کے پاس آیا کریں تو آپ ان کو اٹھوا دیا کریں اور جب ہم فارغ کو ہر چلے جائیں تو آپ کو اختیار ہے آپ پھر ان کو اپنے پاس بٹھا لیا کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں (یہ ہوسکتا ہے) کہنے لگے اس کی ایک تحریر لکھ کر دیجئے حضور ﷺ نے کاغذ طلب فرمایا اور حضرت علی ؓ : کو بلوایا۔ راوی کا بیان ہے ہم ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے ہی تھے (اور تحریر لکھنے نہ پائے تھے) کہ جبرئیل ( علیہ السلام) آیت (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ ۔۔ بِالشّٰکِرِیْن) تک لے کر نازل ہوئی حضور ﷺ نے فوراً دست مبارک سے کاغذ پھینک دیا اور ہم کو طلب فرمایا ہم خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ پڑھ رہے تھے۔ (سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہٖ الرَّحْمَۃ) چناچہ ہم حضور ﷺ کے پاس برابر بیٹھتے رہے۔ جب حضور ﷺ اٹھنے کا ارادہ کرتے تو خود اٹھ جاتے اور ہم کو بیٹھا چھوڑ جاتے اس پر اللہ نے نازل فرمایا : (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبِّہِمْ بالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ ) اس کے بعد (بڑے بڑے سرداروں کے آنے پر بھی) حضور ﷺ ہمارے پاس بیٹھے رہتے اور ہم اتنے قریب بیٹھتے کہ ہمارے زانو حضور ﷺ کے زانو سے چھونے لگتے پھر جب حضور ﷺ کے اٹھنے کا وقت آجاتا تو ہم خود اٹھ جاتے اور حضور ﷺ : کو بیٹھا چھوڑ دیتے آخر آپ بھی اٹھ جاتے اور حضور ﷺ نے ہم سے فرمایا تھا اللہ کا شکر ہے کہ مرنے سے پہلے اس نے مجھے حکم دے دیا کہ میں اپنی امت کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا رہوں۔ تمہارے ہی ساتھ میرا مرنا جینا ہے۔ کلبی نے کہا اقرع اور عینیہ وغیرہ نے عرض کیا تھا۔ آپ ایک دن ہمارے لئے اور ایک دن ان کے لئے مقرر فرما دیجئے حضور ﷺ نے فرمایا میں ایسا نہیں کرسکتا کہنے لگے اچھا تو مجلس ایک ہی رکھئے مگر ہماری طرف کو منہ اور ان کی طرف کو پشت رکھئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے جو واقعہ حضرت خباب ؓ اور حضرت سلمان ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے وہی واقعہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے (صرف) حضرت خباب ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے اس میں اتنا زائد ہے کہ پھر اللہ نے اقرع اور اس کے ساتھی کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا : (وَکَذٰلِکَ فَتَنَّابَعْضَہُمْ ببعض) شیخ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ روایت غریب ہے کیونکہ یہ آیت تو مکی ہے اوراقرع و عینیہ ہجرت سے بہت مدت کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ بغوی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا۔ میں مہاجروں کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ برہنگی کی وجہ سے بعض لوگ بعض کی آڑ پکڑے ہوئے تھے اور ایک قاری پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ تشریف لے آئے اور آکر کھڑے ہوگئے حضور ﷺ : کو کھڑا دیکھ کر قاری چپ ہوگیا آپ نے سلام کیا اور فرمایا تم کیا کر رہے تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : ایک قاری قرآن مجید پڑھ رہا تھا ہم اللہ کا کلام سن رہے تھے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں بعض لوگ ایسے بنا دیئے جن کے ساتھ مجھے اپنے آپ کو جمائے رکھنے کا حکم دیا اس کے بعد اظہار مساوات کے لئے آپ ہمارے وسط میں بیٹھ گئے پھر ہاتھ سے اشارہ فرمایا تو لوگوں نے گرداگرد حلقہ بنا لیا اور سب کے چہرے سامنے آگئے (کوئی آڑ میں نہیں رہا) میرا خیال ہے کہ میرے علاوہ حضور ﷺ نے کسی کو نہیں پہچانا ارشاد فرمایا اے نادار مہاجرو کے گروہ قیامت کے دن تم کو نور کامل حاصل ہونے کی بشارت ہو مالداروں سے آدھے دن بیشتر غریب لوگ جنت میں جائیں گے اور اس آدھے دن کی مقدار پانسو برس ہوگی۔ ابن جریر نے حضرت عکرمہ کا بیان نقل کیا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ مطعم بن عدی اور حارث بن نوفل عبد مناف کے کچھ کافر سرداروں کی معیت میں ابو طالب کے پاس گئے اور کہا اگر آپ کا بھتیجا ان غلاموں کو اپنے پاس سے نکال دے تو اس کی عظمت ہمارے دلوں میں بڑھ جائے گی اور ہماری نظر میں وہ زیادہ قابل اطاعت ہوجائے گا اور ہمارے لئے اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہوجائے گا۔ ابو طالب نے اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے بھی مشورہ دیا کہ ایسا کر دیکھئے ہم بھی تو دیکھیں قریش کا اس سے مقصد کیا ہے اس پر اللہ نے آیت : (وانذر بہ الذین یخافون۔۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ باعلم بالشاکرین) تک نازل فرمائی جن لوگوں کو رسول اللہ کے پاس سے قریش نے ہٹوانا چاہا تھا وہ بلال عمار بن یاسر ابو حذیفہ کا آزاد کردہ غلام سالم۔ اسید کا آزاد کردہ صبیح۔ عبداللہ بن مسعود۔ مقداد بن عبداللہ۔ وقد بن عبداللہ حنظلی اور انہی کی طرح کے اور لوگ تھے اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر ؓ خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور اپنے سابق مشورہ کے عذر خواہ ہوئے اس وقت آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top