Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائےیا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)
قل (اے محمد ان مشرکوں سے) آپ کہہ دیں۔ ارأیتکم بھلا بتاؤ تو۔ ہمزۂ استفہام اظہار تعجب کے لئے ہے اور کاف حرف خطاب ہے اس سے رأت کے فاعل کی تاکید ہو رہی ہے۔ کاف کا اعرابی محل کچھ نہیں ہے (یعنی یہ نہ فاعل ہے نہ مفعول) بلکہ رأت کے دونوں مفعول محذوف ہیں جن پر آنے والا کلام دلالت کر رہا ہے یعنی کیا تم نے دیکھا کہ جب تم اپنے معبودوں کو پکارتے ہو تو کیا تم کو وہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ فراء نے کہا عرب ارأیتک بولتے ہیں لیکن (اس استفہام سے) ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم کو بتاؤ۔ علامۂ تفتازانی نے کہا کہ ارأیت میں رویت علمی یا رویت چشمی کا سوال ہے مگر اس سے مقصود ہے طلب خبر کیونکہ آنکھوں سے دیکھنا علم کا ذریعہ ہے اور علم خبر دینے کا سبب ہے سبب کو مسبب کے قائم مقام رکھا گیا ہے۔ ان اتکم عذاب اللہ اگر (دنیا میں گزشتہ اقوام کی طرح) تم پر اللہ کا عذاب آجائے۔ او اتتکم الساعۃ یا قیامت (اپنی پوری ہولناکیوں کے ساتھ) تم پر آجائے۔ اغیر اللہ تدعون تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ استفہام انکاری ہے جس سے مخاطبوں کو قائل کرنا مقصود ہے۔ ان کنتم صدقین۔ اگر تم سچے ہو کہ یہ بت دیوتا اور معبود ہیں تو کیا ان کو مصیبت دور کرنے کے لئے پکارو گے (نہیں)
Top