Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 16
مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ
مَنْ : جو۔ جس يُّصْرَفْ : پھیر دیا جائے عَنْهُ : اس سے يَوْمَئِذٍ : اس دن فَقَدْ : تحقیق رَحِمَهٗ : اس پر رحم کیا وَذٰلِكَ : اور یہ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ : کامیابی کھلی
جس شخص سے اس روز عذاب ٹال دیا گیا اس پر خدا نے (بڑی) مہربانی فرمائی اور یہ کھلی کامیابی ہے
من یصرف عنہ یومئذ فقد رحمہ جس شخص سے اس روز عذاب ہٹا دیا جائے گا تو یہ اس پر اللہ کی رحمت ہی ہوگی کہ محض اپنی مہربانی سے اس کو عذاب سے بچا لے گا ورنہ عذاب سے محفوظ رہنے والے کا اللہ پر کوئی واجب الادا حق نہیں ہوگا۔ یَوْمَءِذٍفتح پر مبنی ہے۔ عاصم اور یعقوب کی قرأت میں یَصْرِفْہے اس کا فاعل اللہ ہے اور عذاب مفعول محذوف ہے۔ مشہور قرأت یُصْرَفْہے جس کا فاعل عذاب ہے۔ وذلک الفوز المبین اور یہی کھلی کامیابی ہے۔ قاموس میں ہے کہ فوزکا معنی ہے نجات کامیابی۔ ہلاکت۔ ہلاکت تو بہرحال مراد نہیں ہے سیاق کلام کے خلاف ہے اور نجات بھی مراد نہیں ہے کیونکہ عذاب کا ہٹنا خود ہی نجات ہے (تو یہ معنی ہوجائے گا کہ نجات ہے اور یہ مطلب غیر مفید ہے) لامحالہ کامیابی مراد ہے اس تقریر سے واضح ہو رہا ہے کہ عذاب دور ہونے کے لئے جنت میں داخل ہونا لازم ہے (درمیان میں کوئی اور وجہ نہیں کہ عذاب بھی دور کردیا جائے اور پھر جنت میں بھی داخلہ نہ ہو) اس سے معتزلہ کے قول کی غلطی ظاہر ہو رہی ہے جو عذاب اور جنت کے درمیان تیسرے درجہ کے قائل ہیں۔
Top