Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور رستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) خدا کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو
وان ہذا صراط مستقیما فاتبعوہ . (اور عمل کرو) اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے سیدھا سو اس پر چلو۔ فراء نے کہا ان ہذا : (سے پہلے فعل محذوف ہے) اصل میں واتل علیکم ان ہذا : تھا اور میں تم کو سناتا ہوں کہ یہ میرا راستہ ہے۔ مستقیما صراطی : سے حال ہے۔ ہذا : سے اشارہ اس مجموعۂ مضامین کی طرف ہے جن کا ذکر اس سورت میں آیا ہے یعنی توحید ‘ نبوت ‘ انبیاء کا دین ‘ میرا راستہ اور میرا دین ہے۔ میں کہتا ہوں ان : سے پہلے حرف جر بھی محذوف ہوسکتا ہے اور اس وقت اس کا عطف بہ : پر ہوگا۔ بیضاوی نے لام کو محذوف قرار دیا ہے کیونکہ اس کے بعد فاتبعوہ : آیا ہے راستہ کا مستقیم ہونا اتباع کی علت ہے۔ بعض علماء کے نزدیک ہذا : سے اشارہ (صرف) اس مضمون کی طرف ہے جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے یہ آیات محکم ہیں کوئی آیت ان کی ناسخ نہیں تمام مذاہب میں یہ امور حرام ہیں یہ ہی اصول کتاب ہیں جو ان پر چلے گا جنت میں جائے گا جو ان کو ترک کرے گا دوزخی ہوگا۔ انتہیٰ کلامہ۔ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذلکم وصکم بہ لعلکم تتقون . اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دے گی اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم (اس کے خلاف کرنے سے) احتیاط رکھو۔ یعنی اپنی اپنی من مانی مختلف راہوں پر نہ چلو ورنہ یہ خواہش پرستی کی راہیں تم کو اتباع وحی کے راستہ سے پراگندہ کردیں گی اتباع کتاب و سنت شریعت کا تقاضا ہے عقل و دانش کی رسائی وہاں تک ہو سکے یا نہ ہو سکے اور خود تراشیدہ نظریات فاسدہ کا تقاضا ہے کہ کتاب و سنت اگر خواہش پرست طبقہ کے خیالات کے مطابق ہوں تو ان کو مان لیا جائے مخالف ہوں تو نہ مانا جائے اور جہاں تک ہو سکے کتاب و سنت کی صراحتوں کی توجیہ کی جائے فرقہ پرستی اور گروہ بندی کا یہی سنگ بنیاد ہے۔ رافضی ‘ خارجی ‘ مجسمہ ‘ جبریہ ‘ قدریہ اور مختلف فرقے اسی نظریہ کے زیر اثر وجود میں آئے میں نے سورة بقرہ کی آیت کلما اضاء لہم مشوا فیہ واذا اظلم علیہم قاموا : کی تفسیر کے ذیل میں یہ مسئلہ تفصیل سے لکھ دیا ہے۔ اللہ نے تم کو اتباع وحی کی نصیحت اس لئے کی ہے کہ تم گمراہی اور تفرق عن الحق سے بچ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس لکیر سے دائیں بائیں مختلف لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ مختلف رستے ہیں ان میں سے ہر ایک راستہ پر ایک شیطان بیٹھا ہوا ہے اور لوگوں کو اس راستہ کی طرف بلا رہا ہے پھر حضور ﷺ نے آیت ان ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ : تلاوت فرمائی۔ رواہ احمد والنسائی والدارمی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مؤمن نہ ہوگا جب تک اس کا قلبی جھکاؤ اس (دین) کا تابع نہ بن جائے جو میں لے کر آیا ہوں۔ رواہ البغوی فی شرح السنۃ نووی نے اربعین میں لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
Top