Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 149
قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ١ۚ فَلَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ
قُلْ : فرمادیں فَلِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے الْحُجَّةُ : حجت الْبَالِغَةُ : پوری فَلَوْ شَآءَ : پس اگر وہ چاہتا لَهَدٰىكُمْ : تو تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا
قل فللہ الحجۃ البالغۃ فلو شآء لہدکم اجمعین . آپ کہئے کہ پوری غالب دلیل تو اللہ ہی کی رہی پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت یاب کردیتا۔ یعنی اللہ نے اپنے اوامرو نواہی کی جو دلیل بیان کی وہ تو تمہارے خلاف کامل ہے اور تم نے جو اللہ کی مشیت کے مسئلہ کو استدلال میں پیش کیا ہے وہ استدلال ناقص ہے کیونکہ مشیت کے لئے رضامندی لازم نہیں اللہ جو چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق کرتا ہے اور جیسا ارادہ کرتا ہے ویسا حکم دیتا ہے اس سے کسی بات کی بازپرس نہیں کی جاسکتی وہ سب بندوں سے باز پرس کرے گا اس سے سوال کون کرسکتا ہے۔ فرقۂ معتزلہ کہتا ہے کہ کفر اللہ کی مشیت اور ارادہ سے نہیں ہوتا بندہ کی مشیت سے ہوتا ہے معتزلہ نے اس آیت سے اپنے قول پر استدلال کیا ہے اگر واقع میں کفر اللہ کی مشیت سے ہوتا تو پھر کافروں کا قول لو شاء اللہ ما اشرکنا : صحیح تھا اس کو غلط کیوں قرار دیا اور کیوں اس کی تکذیب کی۔ ہماری تفسیر سے معتزلہ کی اس دلیل کی غلطی واضح ہو رہی ہے ہر چیز کا وجود مشیت خدا پر موقوف ہے اس کی تکذیب تو اللہ نے نہیں کی بلکہ آیت کا آخری جملہ فلو شاء لہداکم اجمعین : عموم مشیت کی تائید کر رہا ہے اللہ نے مشرکوں کی مذمت صرف اس بات پر کی کہ انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور اس تکذیب پر اللہ کے رضامند ہونے کا دعویٰ کیا اور جس چیز کو اللہ نے حرام نہیں کیا اس کو از خود حرام کرنے پر اللہ کو راضی قرار دیا اور یہ بات کہی کہ چونکہ سائبہ وغیرہ کی تحریم اللہ کی مشیت کے زیر اثر ہے اس لئے وہ ضرور اس پر راضی ہے (گویا اللہ نے مشرکوں کی تکذیب مشیت اور رضامندی میں فرق نہ کرنے پر کی کفر شرک اور تحریم ما لم یحرم کو مشیت کے زیر اثر قرار دینے پر نہیں کی)
Top