Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 107
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْا١ؕ وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ مَآ اَشْرَكُوْا : نہ شرک کرتے وہ وَمَا : اور نہیں جَعَلْنٰكَ : بنایا تمہیں عَلَيْهِمْ : ان پر حَفِيْظًا : نگہبان وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تم عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم کو ان پر نگہبان مقرر نہیں کیا۔ اور نہ تم ان کے داروغہ ہو
ولو شآء اللہ ما اشرکوا اور اگر (ان کو مؤمن بنانا) چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے۔ مگر اللہ کی بات تو پوری ہونی ہے کہ میں جہنم کو جن و انس سے بھر دوں گا۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ کفر و ایمان ہر ایک اللہ کے ارادہ کے تحت ہوتا ہے اور اللہ کے ارادہ کا پورا ہونا ضروری ہے۔ فرقۂ معتزلہ کی رائے اس کے خلاف ہے (ان کا قول ہے کہ اللہ کفر کا ارادہ نہیں کرتا بندہ خود کفر کا ارادہ کرتا ہے) وما جعلنک علیہم حفیظا اور ہم نے آپ کو ان کا نگراں نہیں بنایا کہ آپ ان کے اعمال کی چوکیداری کریں اور ان کے جرم کا آپ سے مؤاخذہ ہو۔ عطاء نے اس طرح تشریح کی ہے ہم نے آپ کو ان کا نگہبان و محافظ نہیں بنایا کہ اللہ کے عذاب سے آپ ان کو بچا لیں آپ کو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ وما انت علیہم بوکیل اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ ان کی کارسازی آپ کے ذمہ ہو۔ ابن عبدالرزاق نے بسلسلۂ معمر قتادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ مسلمان کافروں کو گالیاں دیتے تھے اس پر کافر بھی مسلمانوں کو گالیاں دیتے تھے اس کی ممانعت میں آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top