Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے
لا تدرکہ الابصار اس کو نگاہیں محیط نہیں ہوسکتیں۔ ابن ابی حاتم وغیرہ نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر جن و بشر اور شیاطین و ملائکہ سب آغاز آفرینش سے آخری لمحۂ حیات تک یک قطار ہو کر (اللہ کا معائنہ کریں تو) کبھی اللہ کا احاطہ نہیں کر پائیں گے۔ فرقۂ معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کا دیدار محال ہے اہل سنت قائل ہیں کہ دنیا میں اللہ کا دیدار نہیں ہوسکتا ‘ جنت کے اندر مؤمنوں کو نصیب ہوگا۔ آیت سے معتزلہ کا استدلال غلط ہے (1) لا تدرک مضارع کا صیغہ ہے اور صیغۂ مضارع کی حقیقی وضع حال کے لئے ہے) استقبال کے لئے استعمال مجازی ہے یا حال و استقبال دونوں کے لئے بطور اشتراک مضارع کی وضع ہے اور آیت میں فی الحال نفی رویت تو بالاجماع مراد ہی ہے دنیا میں اللہ کے دیدار کے جواز کا قائل کوئی نہیں ایسی حالت میں استقبال میں بھی نفی رویت مراد ہونا غلط ہے ورنہ (برصورت اوّل) حقیقت و مجاز دونوں کا ایک وقت میں مراد ہونا لازم آئے گا یا (برصورت دویم) عموم مشترک کا قائل ہونا پڑے گا جو ناجائز ہے (یعنی ایک وقت میں ایک لفظ مشترک کے دونوں معنی مراد لینا درست نہیں۔ اس کو عموم مشترک کہتے ہیں۔ (1) الابصارجمع کا صیغہ ہے اس لئے جنس بصر تو مراد ہو ہی نہیں سکتی بلکہ مجموعۂ افراد مراد ہوگا اب اگر الف لام کو عہدی قرار دیا جائے گا تو وہ ابصار مراد ہوں گے جو دنیا میں موجود ہیں (اور معنی یہ ہوں گے کہ دنیا میں تمام بینائیاں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں) پس اس سے یہ کہاں نکلا کہ جنت میں مؤمنوں کی آنکھیں بھی نہ دیکھ سکیں گی اور اگر الف لام کو استغراقی کہا جائے تو آیت میں استغراق کی نفی کی گئی ہے (یعنی سب آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں) نفی رویت کا استغراق نہیں ہے (یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی یہاں تک کہ جنت میں کوئی مؤمن بھی نہیں دیکھ سکتا) ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت (رب ادنی انظر الیک) تلاوت فرمائی پھر فرمایا اللہ نے ارشاد فرمایا موسیٰ ( علیہ السلام) مجھے جو زندہ دیکھے گا مرجائے گا جو خشک (پتھر وغیرہ) دیکھے گا لڑک جائے گا اور جو تر (درخت وغیرہ) دیکھے گا پھٹ جائے گا اس کے اجزاء پراگندہ ہوجائیں گے۔ مجھے صرف جنت والے دیکھیں گے ان کی آنکھیں مردہ نہ ہوں گی اور ان کے بدن بوسیدہ نہ ہوں گے۔ (3) آیت میں نفی ادراک کی صراحت ہے نفی رویت کا ذکر نہیں ادراک اور رویت میں فرق ہے رویت کا معنی ہے دیکھنا اور ادراک کا معنی ہے کسی چیز کی حقیقت پالینا اور اس کو ہر طرف سے گھیر لینا یا کامل طور پر کسی چیز تک پہنچ جانا (یعنی پورے طور پر اس چیز کو پالینا) رویت اور ادراک میں تلازم نہیں ہے دیکھو اللہ نے فرمایا (فَلَمَّا تَرَاَئَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِنَّا الَمُدْرَکُوْنَ قَالَ کَلاَّ ) جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا اب یقیناً ہم تک یہ پہنچ جائیں گے (ہم پکڑے جائیں گے) موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں (یہ تم کو نہیں پاسکتے) اس آیت میں طرفین سے رویت ہونے کا تو ثبوت ہے مگر ادراک کی پُر زور نفی ہے۔ (4) اچھا رویت اور ادراک کو اگر ہم معنی تسلیم بھی کرلیا جائے تو) آیت میں نفی رویت کی صراحت ہے (کوئی آنکھ اس کو نہیں دیکھتی) رویت محال ہونے کی صراحت نہیں (یعنی یہ مطلب نہیں کہ کوئی آنکھ اس کو دیکھ ہی نہیں سکتی) وہو یدرک الابصار اور وہ تمام نگاہوں کو محیط ہے یعنی اس کا علم محیط ہے۔ وہو اللطیف الخبیر اور وہی باریک ہے و باخبر ہے۔ لطیف کا معنی صاحب قاموس نے لکھا ہے اپنے بندوں سے بھلائی کرنے والا اپنی مہربانی سے مخلوق کو فائدہ پہنچانے والا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اپنے دوستوں پر مہربان۔ صاحب قاموس نے لطیف کا معنی پوشیدہ امور کا عالم بھی لکھا ہے صحاح میں ہے کبھی لطیف ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جس کا ادراک حس سے نہ ہو سکے (یعنی محسوس نہ ہو) صاحب صحاح کی توضیح کے موافق آیت میں لف و نشر مرتب ہوگا کلام اس طرح ہوگا اس کو نگاہیں نہیں پاتیں کیونکہ وہ غیر محسوس ہے وہ نگاہوں کو پالیتا ہے کیونکہ باخبر ہے۔
Top