Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 10
وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور آگے بڑھنے والے السّٰبِقُوْنَ : آگے بڑھنے والے ہیں
اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا) وہ آگے ہی بڑھنے والے ہیں
و السابقون اور جو اعلیٰ درجہ کے ہوں گے وہ تو اعلیٰ درجے کے ہی ہیں وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ : اسلام ‘ طاعت اور قرب خداوندی کی طرف سبقت کرنے والے۔ گروہ انبیاء ‘ ایمان اور اطاعت خداوندی میں سب کے پیشوا اور سب سے آگے ہیں ‘ ان کی امتیں ان کی تابع ہیں ‘ انبیاء کا کامل اتباع کرنے والے اور بوراثت کمالات نبوت حاصل کرنے والے اور خاص انوار ذاتیہ سے مشرف ہونے والے صحابہ کرام اور ان کے بعض متبعین ہیں ‘ اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جو ہجرت میں سبقت کرنے والے تھے ‘ وہی آخرت میں بھی پیش رو ہوں گے۔ عکرمہ نے کہا : سابقین اوّلین سے مراد ہیں وہ لوگ جو اسلام میں سبقت کرنے والے تھے یعنی صحابہ ؓ ۔ ابن سیرین نے کہا : وہ مہاجر اور انصار مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی۔ ربیع بن انس نے کہا : دنیا میں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق میں سبقت کی وہی جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہوں گے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : پانچوں نمازوں کی طرف پیش قدمی کرنے والے مراد ہیں۔ ان تمام اقوال کا حاصل یہ ہے کہ السابقون السابقون سے صحابہ کرام ؓ مراد ہیں۔ حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا : سبقتکم الی الاسلام طوًا غلاما ما بلغت اوان حکمی میں نے تم سب سے پہلے اسلام کی طرف پیش قدمی کی جب کہ میں لڑکا تھا ‘ زمانۂ جوانی کو نہیں پہنچا تھا۔ مجدد الف ثانی (رح) نے فرمایا : صحابی سب کے سب کمالات نبوت میں ڈوبے ہوئے تھے اور تابعین (رح) میں سے اکثر حضرات اور تبع تابعین (رح) میں سے بعض اشخاص بھی کمالات نبوت میں مستغرق تھے لیکن اس کے بعد 1000 ھ تک) انوار نبوت مدہم اور ہلکے ہوتے رہے اور کمالات ولایت کا ظہور ہونے لگا اور وہ انوار ولایت جو صفاتی اور ظلی تجلیات سے مستفاد تھے (سُکر ‘ شطح اور خوارق و کرامات کی صورت میں نمودار ہونے لگے پھر 1000 ھ کے بعد بعض افراد امت کو نبی کی سرشت پر پیدا کیا گیا اور اللہ نے کمالات نبوت سے ان کو سرفراز فرمایا (یہ لوگ کمالات نبوت میں دور اوّل کے مشابہ ہوگئے) اسی وجہ سے امت کا آخری دور ‘ اوّل کی طرح اور اس کے مشابہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری امت کی مثال ایسی ہے جیسے بارش۔ معلوم نہیں ہوتا کہ بارش کا ابتدائی حصہ زیادہ بہتر (مفید) ہے یا آخری حصہ ؟ (رواہ الترمذی عن انس) امام جعفر صادق نے اپنے والد امام باقر کی روایت سے اپنے دادا کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بشارت ہو ‘ بشارت ہو ‘ میری امت بارش کی طرح ہے کہ معلوم نہیں اسکا اوّل حصہ زیادہ بہتر ہوتا ہے یا آخری حصہ یا میری امت ایک باغ کی طرح ہے۔ حضرت ابوذر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کا بہترین حصہ ابتدائی اور آخری ہے ‘ درمیانی حصہ میں گدلا پن ہے۔ (رواہ الحکیم الترمذی) اوّل ‘ السابقون میں الف لام جنسی ہے اور دوسرے السابقون میں الف لام عہدی ہے یعنی سابقین وہی سابقین ہیں جن کے حال ‘ کمال اور مآل سے تم واقف ہو یا یہ مطلب ہے کہ سابقین وہی لوگ ہیں جو جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔
Top