Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 53
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًاۙ
اَمْ : کیا لَھُمْ : ان کا نَصِيْبٌ : کوئی حصہ مِّنَ : سے الْمُلْكِ : سلطنت فَاِذًا : پھر اس وقت لَّا يُؤْتُوْنَ : نہ دیں النَّاسَ : لوگ نَقِيْرًا : تل برابر
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے تو لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے
ام لہم نصیب من الملک . ہاں ! ان کے پاس کوئی حصّہ سلطنت کا نہیں ہے اممنقطعہ ہے اور ہمزہ انکاری ہے یہودیوں کا خیال تھا کہ عنقریب ان کی سلطنت ہوجائے گی اس خیال کی نفی کردی گئی۔ یا نصیب ملکی سے مراد ہے قومی سیادت و سرداری جس کے فوت ہونے کے اندیشہ سے یہودیوں نے نبوت کا انکار کیا تھا۔ سرداری کے لوازم میں سے سخاوت ہے اور یہودی بڑے کنجوس تھے۔ سخاوت نام کو بھی ان میں نہ تھی اس لئے پُر زور طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کی سرداری کا انکار کردیا۔ ممکن ہے بطور تعریض یہ بیان کرنا مقصود ہو کہ جن کو اقرار نبوت سے اپنی سرداری فوت ہونے کا اندیشہ تھا تو خیر ان کے انکار کی ایک وجہ بھی ہے (اگرچہ یہ وجہ بھی قابل پذیرائی عذر نہیں ہے) لیکن جن لوگوں کو قومی سیادت حاصل ہی نہیں ہے ان کا انکار تو انتہائی حماقت ہے۔ فاذا لا یوتون الناس نقیرا . ایسی حالت میں تو یہ لوگوں کو ذرا سی چیز بھی نہ دیتے۔ نقیر کھجور کی گٹھلی کے شگاف کا گڑھا۔ مراد حقیر چیز جیسے فتیل (دو انگلیوں کے درمیان بٹی ہوئی میل کی بتی یا ذرا سا بٹا ہوا دھاگا مگر مراد حقیر چیز ہوتی ہے) یعنی اگر ان کو حکومت و سلطنت کا کوئی حصہ مل جاتا تو انتہائی کنجوسی کی وجہ سے یہ لوگوں کو حقیر ترین ذرا سی چیز بھی نہ دیتے ایسی حالت میں اللہ ان کو سلطنت کیسے عنایت کرسکتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اگر یہ بادشاہ بھی ہوتے تب بھی لوگوں کو ذرا سی چیز نہ دیتے اور اب تو ذلیل محتاج ہیں ایسی حالت میں ان کے بخل کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اہل کتاب کہتے تھے محمد ﷺ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ان کو جو کچھ ملا ہے وہ عاجزی اور فروتنی کی وجہ سے ملا ہے ‘ حالانکہ ان کی نو بیبیاں ہیں کوئی بادشاہ بھی ان سے زیادہ عیش میں کیا ہوگا اس پر مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔
Top