Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 17
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں التَّوْبَةُ : توبہ قبول کرنا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (اللہ کے ذمے) لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السُّوْٓءَ : برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر يَتُوْبُوْنَ : توبہ کرتے ہیں مِنْ قَرِيْبٍ : جلدی سے فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں يَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلَيْھِمْ : ان کی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھے ہیں۔ پھر جلد توبہ قبول کرلیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
انما التوبۃ . توبہ قبول کرنا یا گناہ معاف کرکے ارادۂ عذاب سے باز رہنا۔ علی اللہ . اللہ کے ذمہ یعنی اس ذمہ داری کے تحت جس کا اللہ نے خود وعدہ کرلیا ہے۔ للذین یعملون السوء بجھالۃ . صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کے ساتھ گناہ کرتے ہیں بغوی نے لکھا ہے کہ قتادہ نے فرمایا : رسول اللہ کے صحابیوں کا اتفاق رائے ہے اس امر پر کہ ہر گناہ خواہ قصداً ہو یا بلا قصد جہالت ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہے۔ ابن جریر نے ابو العالیہ کا قول بھی یہی نقل کیا ہے۔ کلبی نے (بجھالۃ کی تفسیر کرتے ہوئے) کہا کہ گناہ ہونے سے وہ ناواقف نہیں ہے مگر اسکے عذاب سے ناواقف ہے بعض علماء نے جہالت کی تشریح میں کہا دوامی عیش کو چھوڑ کر عارضی فنا پذیرلذت کو اختیار کرنا جہالت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نفس حیوانی کے جوش کے وقت اللہ کے عذاب سے غافل ہوجانا ہی جہالت ہے۔ ثم یتوبون من قریب . پھر قریب وقت میں ہی توبہ کرلیتے ہیں : من قریب میں من تبعیضیہ ہے قریب سے مراد یا یہ ہے کہ نیکیوں کو گناہ گھیر کر تباہ نہ کرچکے ہوں یا یہ مراد ہے کہ گناہ کی محبت دل کو چر نہ گئی ہو دل پر گناہ کا ٹھپہ نہ لگ گیا ہو زنگ نہ چڑھ گیا ہو۔ سدی اور کلبی نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ مرض موت میں مبتلا ہونے سے پہلے صحت کی حالت میں توبہ کی ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ قریب وقت میں توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موت کے سامنے آنے سے پہلے زندگی میں توبہ کرلی ہو یعنی عذاب کے فرشتوں کو دیکھنے سے پہلے توبہ کی ہو۔ عکرمہ اور ضحاک نے یہی تفسیر کی ہے (اسی مفہوم پر دلالت کر رہی ہے آیت : اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوت۔۔ (جس میں حضور موت کے وقت توبہ کو قبول کرنے کی نفی کی گئی ہے) اور رسول اللہ کا فرمان کہ غرغرہ ہونے سے پہلے بندہ کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ وابن حبان والحاکم والبیہقی عن ابن عمر) یہ حدیث صحیح ہے۔ دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : شیطان نے عرض کیا۔ تیری عزت و جلال کی قسم میں آدمیوں کو برابر گمراہ کرتا رہوں گا۔ جب تک ان کے اندر جان ہوگی اللہ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں بھی ان کو ہمیشہ بخشتا رہوں گا۔ جب بھی وہ مجھ سے معافی کے طلب گار ہوں گے۔ (رواہ احمد و ابو یعلی) حضرت ابو موسیٰ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہگار توبہ کرلے (اور اس کی توبہ کو اللہ اپنے ہاتھ سے لے کر قبول فرمائے) اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہگار توبہ کرلے (اور یہ سلسلہ بند نہ ہوگا) یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف سے برآمد ہوجائے۔ (رواہ مسلم) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج کے مغرب کی جانب سے برآمد ہونے سے پہلے جو شخص توبہ کرلے گا اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (رواہ مسلم) ا اللہ نے مدت عمر کو قریب اس لیے فرمایا : کہ زندگی کے بعد آنے والی مدت بہت زیادہ (اور بعید) ہے اللہ نے خود فرمایا ہے : قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (یعنی آئندہ زندگی کے مقابلہ میں اس دنیا کا سروسامان قلیل ہے۔ ) فاولءِک یتوب اللہ علیھم . پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرمائے گا 1 ؂ کیونکہ اللہ سے وعدہ کی خلاف ورزی ناممکن ہے اور اس نے (اپنے وعدہ کے ساتھ) توبہ قبول کرنے کو اپنے لیے فرض قطعی کی طرح کرلیا ہے۔ گویا یہ جملہ کلام سابق کے نتیجہ کی طرح ہے۔ و کان اللہ علیم حکیما . اور اللہ علیم و حکیم ہے یعنی اخلاص کے ساتھ توبہ کرنے والے کو جانتا ہے توبہ کے بعد عذاب نہیں دے گا۔
Top