Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 69
وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَاَشْرَقَتِ : اور چمک اٹھے گی الْاَرْضُ : زمین بِنُوْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے نور سے وَوُضِعَ : اور رکھدی جائے گی الْكِتٰبُ : کتاب وَجِايْٓءَ : اور لائے جائیں گے بِالنَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) وَالشُّهَدَآءِ : اور گواہ (جمع) وَقُضِيَ : اور فیصلہ کیا جائے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ : اور وہ ان پر لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیا جائے گا
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اُٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (کھول کر) رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور (اور) گواہ حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی
واشرقت الارض بنور ربھا ووضع الکتاب وجائ بالنبین والشھداء وقضی بینھم بالحق وھم لا یظلمون اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا جائے گی اور (ہر ایک کا) اعمال نامہ (اس کے سامنے) رکھ دیا جائے گا ‘ اور پیغمبروں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور انصاف کے ساتھ سب کا فیصلہ کردیا جائے گا اور (کسی پر) ظلم نہیں کیا جائے گا۔ وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ یعنی میدان قیامت کی زمین روشن ہوجائے گی۔ بِنُوْرِ رَبِّھَا اپنے خالق کے نور سے۔ بغوی نے لکھا ہے : جب اللہ بندوں کا فیصلہ کرنے کیلئے جلوہ فرما ہوگا تو جس طرح کھلے ہوئے آسمان پر چمکتے سورج کو دیکھنے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا ‘ اسی طرح نور رب کو دیکھنے میں لوگوں کو کوئی شبہ نہیں ہوگا۔ حسن بصری اور سدی نے کہا : نور رب سے مراد ہے عدل و انصاف۔ عدل سے آبادیوں کی زینت اور اظہار حقوق ہوتا ہے (اور نور سے بھی مقامات کے حسن اور اشیاء کا انکشاف ‘ جیسے ظلم کو تاریکی کہا جاتا ہے ‘ اسی طرح عدل کو نور قرار دیا گیا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ظلم (تہہ بر تہہ بہت سی) تاریکیاں ہوجائے گا ‘ متفق علیہ من حدیث ابن عمر۔ وَوُضِعَ الْکِتَاب یعنی ہر شخص کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا۔ بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام اعمال نامہ عرش کے نیچے ہیں (جب موقف ہوگا ‘ یعنی قیامت کے دن حساب فہمی کیلئے لوگوں کو ایک میدان میں کھڑا کیا جائے گا) تو اللہ ایک ہوا بھیجے گا جو اعمال ناموں کو اڑا کر لائے گی اور دائیں بائیں ہاتھوں میں ان کو پہنچا دے گی۔ اعمال ناموں میں سب سے پہلی تحریر یہ ہوگی : اِقْرَأْ کِتَابِکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا (اپنا اعمال نامہ پڑھ لے ‘ تو ہی آج اپنا محاسبہ کرنے کیلئے کافی ہے) ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود کی موقوف روایت سے اور دیلمی نے حضرت ابوہریرہ کی مرفوع روایت سے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن مؤمن کے اعمال نامہ کا عنوان ہوگا : حسن ثناء الناس۔ وَجِآیْءَ بالنَّبِیّٖنَ سیوطی کا قول ہے کہ علماء نے کہا کہ حساب انبیاء کی موجودگی میں ہوگا (یعنی انبیاء کے سامنے حساب فہمی ہوگی) ابن مبارک نے سعید بن مسیب کا قول نقل کیا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ صبح و شام رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ کی امت کو نہ لایا جاتا ہو۔ آپ ان کی صورتوں کو اور ان کے اعمال کو پہچان لیتے ہیں ‘ اسی لئے قیامت کے دن ان کے متعلق شہادت دیں گے۔ وَالشُّھَدَآء حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت والے پیغمبروں کی طرف سے شہادت دیں گے کہ انہوں نے (اپنی امتوں کو) احکام خداوندی پہنچا دئیے تھے۔ عطاء نے کہا : الشہداء سے مراد ہیں اعمال نامے لکھنے والے فرشتے۔ اسی پر دلالت کر رہی ہے آیت وَجَآءَتُ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا سَآءِقٌ وَّشَھِیْدٌ۔ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ یعنی بندوں کے درمیان۔ بِالْحَقِّ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ یعنی کسی کی بدیاں بڑھائی نہیں جائیں گی اور نہ کسی کی نیکیاں گھٹائی جائیں گی۔
Top