Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 15
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
فَاعْبُدُوْا : پس تم پرستش کرو مَا شِئْتُمْ : جس کی تم چاہو مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوائے قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک الْخٰسِرِيْنَ : گھاٹا پانے والے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : گھاٹے میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو وَاَهْلِيْهِمْ : اور اپنے گھر والے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت اَلَا : خوب یاد رکھو ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الْخُسْرَانُ : گھاٹا الْمُبِيْنُ : صریح
تو تم اس کے سوا جس کی چاہو پرستش کرو۔ کہہ دو کہ نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے
فاعبدوا ما شئتم من دونہ اور تم لوگ اللہ کے سوا جس کی چاہو ‘ پوجا کرو۔ پہلے حکم دیا تھا کہ عبادت کرنے اور عبادت کو اللہ ہی کیلئے خالص بنانے پر مامور ہونے کی اطلاع دے دو ‘ اب اس آیت میں حکم دیا کہ اپنی عبادت کے خاص اللہ کیلئے ہونے کی (کافروں کو) خبر کر دو ۔ یہ ترتیب اسلئے رکھی کہ کافروں کو جو اپنے باپ دادا کے دین پر واپس آجانے کی حضور ﷺ کے متعلق کچھ امید تھی ‘ وہ بالکل منقطع ہوجائے ‘ اسلئے دھمکی کیلئے اور آس توڑ دینے کی غرض سے آخر میں فرمایا کہ تم جس کی چاہو پوجا کرو۔ فَاعْبُدُوا محذوف شرط کی جزا ہے ‘ مفصل کلام اس طرح تھا کہ تم اگر میری موافقت نہیں کرتے اور اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو پھر اللہ کے علاوہ جس کو چاہو پوجتے پھرو۔ اس کے نتیجہ میں تم پر جو عذاب آئے گا اور نامراد ہو گے ‘ اس کو خود دیکھ لو گے۔ قل ان الخسرین الذین خسروا انفسھم واھلیھم یوم القیمۃ الا ذلک ھو الخسران المبین کہہ دیجئے کہ پورے گھاٹے میں وہی لوگ ہیں جو اپنی جانوں اور اپنے متعلقین کے تعلق سے قیامت کے دن گھاٹے میں پڑگئے۔ یاد رکھو کہ یہی صریح خسارہ ہے۔ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یعنی گمراہ ہو کر خود اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا۔ وَاَھْلِیْھِمْ اور متعلقین کو گمراہ کر کے خود خسارہ پایا۔ اہل سے مراد ہیں متعلقین ‘ بیویاں ‘ اولاد اور خدمتگار وغیرہ۔ عربی محاورہ میں خَسِرَ التَّاجِر اس وقت کہا جاتا ہے جب تجارت میں تاجر کو گھاٹا ہوجائے۔ کافروں نے بھی اپنے اسی حصہ کو جو جنت میں (بشرط ایمان و عمل صالح) ان کیلئے مقرر تھا ‘ دوزخ کے اس حصہ سے بدل دیا جو اہل جنت کیلئے (بشرط کفر و شرک) مقرر تھا (یعنی کافر ہو کر مؤمنوں کو اپنی جنت والی جگہ دے دی اور دوزخ کے اندر وہ جگہ لے لی جو مؤمنوں کیلئے مقرر تھی ‘ اگر وہ ایمان نہ لاتے اور نیک کام نہ کرتے) خَسِرَ فعل لازم ہے لیکن آیت میں بطور فعل متعدی استعمال کیا گیا ہے (کیونکہ اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ مفعول مذکور ہے) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ نے ہر آدمی کیلئے جنت میں ایک مکان اور متعلقین (بیوی وغیرہ) مقرر کر دئیے ہیں۔ اب اگر بندہ اطاعت گذار ہے تو وہ مکان اور متعلقین اس کو مل جائیں گے اور اگر نافرمان ہے تو وہ گھر اور متعلقین کسی دوسرے اطاعت گذار بندہ کو دے دئیے جائیں گے۔ میں کہتا ہوں : اس تشریح پر آیت خسِرُوْا کا معنی ہوگا فَوَّتُوْا یعنی خاسر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کھو دیا اپنی جانوں کو بھی اور متعلقین کو بھی۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ خسران اہل کی دو صورتیں ہیں : اگر اہل و عیال دوزخی ہیں تو اس شخص کے گمراہ ہونے کی وجہ سے دوزخی ہوئے اور اگر جنتی ہیں تو یہ (کافر دوزخی ہے) ان سے جاتا رہا ‘ ہمیشہ کیلئے الگ ہوگیا۔ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ یعنی روز قیامت کا خسران ہی حقیقت میں خسران ہے (جو کبھی دور نہ ہوگا) دنیوی گھاٹا تو قابل تبدیل ہے (جا سکتا ہے) اسلئے آسان ہے۔ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ کی تفصیل اگلی آیت میں فرما دی۔
Top