Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
والذین یقولون ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عنایت فرما۔ اَعْیُنٍبصیغۂ جمع قلت ذکر کیا (عیون نہیں فرمایا) کیونکہ آنکھوں سے مراد ہیں متقیوں کی آنکھیں اور دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد کم ہی ہے۔ مِنْ اَزْوَاجِنَّا میں مِن ابتدائیہ ہے یعنی ہمارے اہل و عیال کو صالح بنا کہ ان سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ قرطبی نے لکھا ہے مؤمن کی آنکھ کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی ٹھنڈک نہیں کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے۔ حسن نے کہا قرۃ مصدر ہے اسی لئے اس کو بصیغۂ مفرد ذکر کیا۔ قرۃ کا اصل معنی ہے ٹھنڈک ‘ خنکی ‘ حرارت کی ضد۔ عرب (گرم ملک کی سکونت کی وجہ سے) گرمی سے تکلیف اور ٹھنڈک سے چین محسوس کرتے ہیں ‘ خوشی کے وقت قرۃ العین (خنکئ چشم) اور غم کے وقت سختہ العین (گرمئ چشم) کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے اور غم کے آنسو گرم ہوتے ہیں۔ ازہری نے کہا قرۃ العین کا یہ معنی ہے کہ دل کو اپنا پسندیدہ محبوب مل جائے اور آنکھ دوسروں سے ہٹ کر اپنے محبوب ہی کو دیکھے۔ واجعلنا للمتقین اماما۔ اور ہم کو متقیوں کا پیشوا بنا۔ جب اہل و عیال متقی ہوجائیں گے تو لامحالہ وہ مؤمن متقیوں کے امام (پیشوا) قرار پائیں گے۔ لفظ امام مفرد ہے جنس پر دلالت کر رہا ہے (اور اجعلنا میں ضمیر مفعول جمع ہے اور جماعت مؤمنوں کی ہی یہ دعا ہے) لیکن غیر مقصود کا اشتباہ نہیں ہے۔ اسی لئے بصیغۂ مفرد ذکر کیا جیسے دوسری آیت میں عدو اور طفل بصیغۂ مفرد جماعت کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے۔ (ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلاً فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِیْ الاَّرَبَ الْعَالَمِیْنَ ) ۔ بعض علماء نے کہا امام اَمّ کا مصدر ہے جیسے صیام اور قیام۔ یا یوں کہا جائے کہ واجْعَلْنَا یعنی واجْعَلْ کُلَّ وَاحِدٍ مِنَّاہم میں سے ہر ایک کو امام بنا دے جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکَ (بجائے رسل کے رسول کا لفظ ذکر کیا) بعض اہل علم نے کہا امام آم (بر وزن عام خاص) کی جمع ہے جیسے صائم کی جگہ صیام۔ اس وقت مطلب یہ ہوگا کہ ہم کو متقیوں کے راستہ پر چلنے والا اور ان کی پیروی کا قصد کرنے والا بنا دے۔
Top