Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 71
وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا
وَمَنْ تَابَ : اور جس نے توبہ کی وَعَمِلَ : اور عمل کیے صَالِحًا : نیک فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ يَتُوْبُ : رجوع کرتا ہے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَتَابًا : رجوع کرنے کا مقام
اور جو توبہ کرتا اور عمل نیک کرتا ہے تو بےشک وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے
ومن تاب اور جس نے توبہ کی۔ یعنی شرک و معاصی سے توبہ کی۔ شرک اور گناہ کو چھوڑ دیا اور ندامت کے ساتھ معافی کا طلبگار ہوا۔ وعمل صالحا اور نیک عمل کئے۔ یعنی گزشتہ عمل بد کی تلافی نیک اعمال سے کی یا یہ مطلب ہے کہ شرک و معصیت کو چھوڑ کر دائرۂ طاعت میں داخل ہوگیا۔ فانہ یتوب الی اللہ متابا۔ تو (وہ بھی عذاب سے بچا رہے گا کیونکہ) حقیقت میں وہ اللہ کی طرف سے خاص طور پر رجوع کر رہا ہے۔ پس اللہ کا (عطا کیا ہوا) حق ہے کہ اللہ اس کو ثواب دے اور اس کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے۔ مَتَابًاکی تنوین بعض اہل تفسیر کے نزدیک تعظیم کے لئے اور توبہ کی ترغیب کے لئے ہے مطلب یہ کہ وہ اللہ کی طرف ایسا عظیم الشان رجوع کرتے ہیں جو اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہے اور عذاب کو مٹا دینے والا ہے اور حصول ثواب کا ذریعہ ہے۔ بعض علماء نے کہا اللہ کی طرف لوٹنے سے مراد ہے اللہ کے ثواب کی طرف لوٹنا اور یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ بغوی نے لکھا ہے بعض اہل علم کا قول ہے کہ جن گناہوں سے اجتناب کرنے کی سابق آیت میں صراحت کی گئی ہے اس آیت میں ان گناہوں سے توبہ مقصود نہیں ہے دوسری قسم کی توبہ اور رجوع مقصود ہے۔ یعنی جن لوگوں نے شرک سے توبہ کی اور فرائض کو ادا کیا اور قتل و زنا کا ارتکاب نہیں کیا اس کا رجوع مرنے کے بعد اللہ کی طرف بحسن و خوبی ہوگا۔ قتل و زنا کا ارتکاب کرنے والوں سے قتل و زنا نہ کرنے والوں کا رجوع بہتر حالت میں ہوگا ‘ اس صورت میں پہلی توبہ جس کا ذکر من تاب میں کیا گیا ہے جزا ہوگی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت تمام گناہوں سے توبہ کے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص توبہ کرنے کا ارادہ کرے اور عز م کرچکا ہو تو اس کو لوجہ اللہ توبہ کرنا چاہئے فَاِنَّہٗ یَتُوْباگرچہ خبر ہے لیکن بمعنئ امر ہے۔ بعض نے کہا (یتوب میں توبہ بمعنی رجوع ہے) مطلب یہ ہے کہ آخر اللہ کی طرف لوٹنا اور منتقل ہونا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر آیت یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ میں وہ تائب مراد ہوں جن سے غلبۂ حال اور سکر و محبت کے زیر اثر کچھ ایسی لغزشیں ہوگئی ہوں جو غیر شرعی ہوں معیار شرع پر پوری نہ اترتی ہوں پھر اس محبت کے غلبہ کی وجہ سے اللہ ان کی لغزشوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے تو اس آیت میں وہ نیک بندے مراد ہوسکتے ہیں جن سے کوئی غیر شرعی حرکت سرزد نہیں ہوئی نہ سکر اور غلبۂ حال کی وجہ سے نہ حالت صحو میں بلکہ ان بندوں نے تمام مکروہات و ممنوعات شرعیہ سے رجوع کرلیا اور کبھی کوئی گناہ کا کام نہیں کیا ‘ ان اصحاب صحو کا رجوع اللہ کی طرف اصحاب سکر سے بہتر ہوگا جیسے نقشبندیہ ہیں جو بالکل صحابۂ کرام کا نمونہ ہیں اور صحابہ کی طرح سنت کے پیرو ہیں۔
Top