Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا
قُلْ : فرما دیں اَذٰلِكَ : کیا یہ خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا جَنَّةُ الْخُلْدِ : ہمیشگی کے باغ الَّتِيْ : جو۔ جس وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) كَانَتْ : وہ ہے لَهُمْ : ان کے لیے جَزَآءً : جزا (بدلہ) وَّمَصِيْرًا : لوٹ کر جانے کی جگہ
پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ ان (کے عملوں) کا بدلہ اور رہنے کا ٹھکانہ ہوگا
قل اذلک خیر ام جنۃ الخلد التی وعد المتقون آپ کہئے کیا یہ بہتر ہے یا وہ دوامی جنت بہتر ہے جس کا وعدہ مؤمنوں سے کیا گیا ہے۔ قُلْ اے محمد ﷺ ! آپ کہہ دیجئے۔ اَذٰلِکَکیا یہ دوزخ جس کی حالت مذکورہ عبارت میں بیان کی گئی۔ اور دوزخ والے یا ذٰلِکَسے اشارہ دنیوی خزانہ اور یہاں کے باغات کی طرف ہے۔ یہ استفہام تقریری ہے جس کے اندر استہزاء اور سرزنش شامل ہے۔ الْمُتَّقُوْنَ سے مراد ہیں شرک اور تکذیب سے بچنے والے (یعنی تمام مؤمن) کیونکہ متقیوں کے مقابلہ میں کفار کا ذکر کیا گیا ہے۔ مؤمن مراد لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنت ہر مؤمن کو ملے گی۔ جَنَّۃُ الْخُلْدِمیں اس بات پر دلالت ہے کہ جنت ہمیشہ رہے گی۔ کانت لہم جزآء ومصیرا۔ ان کے لئے جنت (ان کے اعمال کی) جزا تھی اور (عظیم الشان) لوٹنے کی جگہ۔ یعنی اللہ کے علم میں یالوح محفوظ میں جنت مؤمنوں کے اعمال کی جزا تھی یا یوں کہا جائے کہ اللہ کا وعدہ ایسا ہی یقینی الوقوع ہے جیسے کہ واقع ہوگیا (اس لئے کانت ماضی کا صیغہ استعمال کیا) ۔ جَزَآءً یعنی ثواب اعمال۔ مَصِیْرًا لوٹنے کی جگہ جہاں پلٹ کر جائیں۔ مصیراً میں تنوین اظہار عظمت کے لئے ہے۔
Top