Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ یہ المتقین کی صفت ہے پھر اگر تقویٰ کی تفسیر شرک سے بچنے کے ساتھ کی جائے گی تو صفت احترازیہ ہوگی ورنہ کاشفہ یعنی تمام اصول اعمال کو جو ایمان اور نماز اور زکوٰۃ میں شامل ہوگی ان چیزوں کو اصول اعمال کہنے کی یہ وجہ ہے کہ ایمان ہر عمل کا سر ہے اور نماز دین کا ستون اور زکوٰۃ اسلام کا پل اور ممکن ہے کہ صفت مادحہ ہو پھر اس صورت میں الَّذِیْنَ ۔۔ مبتدا ہوگا اور اُوْلٰءِکَ عَلَی ھُدًی خبر۔ ابو جعفر 3 ؂ اور ابو عمر و 4 ؂ اور ورش 5 ؂ نے یُؤْمِنُوْنَ کو واؤ سے پڑھا ہے جو ہمزہ سے بدلا ہوا ہے اسی طرح ابو جعفر ہر ساکن ہمزہ کو حذف کرتے اور ضمہ کے بعد واقعہ ہو تو واؤ سے اور کسرہ کے بعد واقع ہو تو یا سے بدلتے ہیں مگر انبءھم اور نبءھم اور نبئنا کو اس قاعدہ سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ ابو عمرو بغیر استثناء سب جگہ ساکن ہمزہ کو حذف کرتے ہیں مگر جہاں کہیں حالت جزم میں ہمزہ ساکن ہو یا وہ کلمہ ایک لغت سے نکل کر دوسرے لغت میں منتقل ہوگیا ہو تو حذف نہیں کرتے جیسے یھیئ اور مؤصَدَۃٌ اور رئیا وغیرہ۔ ورش اس ساکن ہمزہ کو حذف کرتے ہیں جو فعل میں فا کلمہ کی جگہ واقعہ ہو لیکن نودی اور نؤتِہٖ کو مستثنیٰ بتاتے ہیں فعل میں عین کلمہ کی جگہ ہمزہ واقعہ ہو تو بخر باب رؤیا اور مکسور العین فعل کے کہیں حذف نہیں کرتے۔ ایمان کے لغوی معنی تصدیق کے ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا ( یہاں مؤمن بمعنی مصدق ہے) اور یہ تصدیق دل اور زبان دونوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن شرعی ایمان یہ ہے کہ دل اور زبان دونوں سے اس چیز کی تصدیق کی جائے جس کو جناب نبی عربی ﷺ خدا کے ہاں سے لائے اور جس کا علم یقینی ہو یہی وجہ ہے کہ دلی تصدیق بغیر لسانی تصدیق کے معتبر نہیں البتہ حالت اکراہ اور اجبار میں معتبر ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَ جَحَدُوا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتَھَا اَنْفُسُھُمْ (یعنی باوجودیکہ فرعونیوں کے دل موسوی معجزوں کا یقین کرچکے تھے مگر انہوں نے ہیکڑی اور شیخی کے مارے ان کو نہ مانا) دیکھئے یہاں چونکہ دلی تصدیق کے ساتھ زبانی تصدیق نہ تھی اس لیے دلی تصدیق کا اعتبار نہیں کیا گیا اور فرمایا : یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَھُمْ (یعنی یہودی جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح ( ہمارے) ان (پیغمبر محمد ﷺ کو بھی پہنچانتے ہیں) یہاں بھی یہودیوں کی دلی تصدیق کا اعتبار نہیں کیا گیا ہاں حالت اکراہ میں صرف تصدیق قلبی معتبر ہوسکتی ہے جیسا کہ قرآن کے ایک موقع پر ارشاد ہوا ہے : اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبہٗ مُطْمَءِنٌّ بالْاِیْمَانِ (یعنی جو شخص کفر پر مجبور کیا جائے مگر اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو تو اس سے کچھ مواخذہ نہیں) خلاصہ یہ کہ تصدیق قلبی بدون تصدیق زبانی کے حالت اکراہ میں معتبر ہے لیکن زبانی تصدیق بغیر دلی تصدیق کے مطلقاً کسی حالت میں معتبر نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے واللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ ( یعنی اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق بیشک جھوٹے ہیں) رہے اعمال وہ ایمان میں داخل نہیں ہیں اسی وجہ سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کا یُوْمِنُوْنَ پر اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰت کا اٰمَنُوْا پر عطف صحیح ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ ہم ایک دن آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ دفعتاً ایک شخص نمودار ہوا جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت سیاہ تھے نہ تو اس پر سفر کا کچھ اثر معلوم ہوتا تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچان ہی سکتا تھا غرض کہ وہ یہاں تک بڑھا چلا آیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس آگیا اور اپنے زانو حضرت ﷺ کے زانو سے ملا کر بیٹھ گیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں حضرت کے زانو پر رکھ دیں اور عرض کیا اے محمد ﷺ ! مجھے اسلام کی حقیقت بتلائیے آپ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ خدا کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور محمد رسول خدا ﷺ ہیں اور نماز ٹھیک طور پر پڑھ ‘ زکوٰۃ دے ‘ رمضان کے روزے رکھ ‘ اگر کسی سواری کا مقدور ہو تو خانہ خدا کا حج کر۔ اس شخص نے کہا آپ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص خود ہی تو سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے پھر اس نے کہا حضرت ! مجھے ایمان کی حقیقت بتلائیے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو خدا کو اس کے فرشتوں کو اس کی کتابوں کو اس کے پیغمبروں کو روز قیامت کو تقدیر کے برے بھلے کو دل سے مانے۔ اس نے کہا آپ ﷺ نے ٹھیک فرمایا پھر کہا اب احسان کی حقیقت سے اطلاع دیجئے۔ ارشاد ہوا احسان یہ ہے کہ تو خدا کی اس طرح عبادت کرے جیسے کہ اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر اس طرح نہ ہو سکے تو ( یہ یقین رکھ کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے پھر اس نے کہا قیامت کے متعلق فرمائیے کہ کب برپا ہوگی ارشاد کیا جواب دینے والا پوچھنے والے سے اس کو کچھ زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کی ناواقفی میں میں اور آپ دونوں برابر ہیں) اس نے کہا تو اس کے پتے ہی بتادیجئے فرمایا قیامت کی نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنے مالک اور آقا کو جنے۔ (مطلب یہ کہ قیامت کے قریب لونڈی کے بچوں کی کثرت ہوگی) دوسری نشانی یہ ہے کہ ننگے پاؤں برہنہ بدن محتاج بکریوں کے چروا ہے باہم مقابلہ میں اونچی اونچی عمارتوں پر فخر کرینگے۔ حضرت عمر کہتے ہیں اس کے بعد وہ شخص چلا گیا میں تھوڑی دیر تک حضرت کی خدمت میں بیٹھا رہا۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا عمر ! تم جانتے ہو یہ سائل کون تھا میں نے عرض کیا خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا جبرئیل تھے اور اس غرض سے آئے تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دیں۔ یہی روایت شیخین نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے قدرے لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کی ہے چناچہ اس روایت میں بجائے وَ اَنْ تَرَی الْحفَاۃَ الْعُرَاۃَ ۔۔ کے یہ الفاظ آئے ہیں اِذَْا رَأیْتَ الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الصُّمَّ الْبُکْمَ مُلُوْکَ الْاَرْض فِی خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہ ثُمَّ قَرَءَ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ [ الْایۃَ ] (یعنی جناب نبی کریم ﷺ نے سائل (جبرئیل ( علیہ السلام) سے فرمایا کہ قیامت کے برپا ہونے کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ تو برہنہ جسم برہنہ پا۔ گونگوں بہروں کو زمین کا بادشاہ اور ملک کا حکمران دیکھے گا قیامت منجملہ ان پانچ چیزوں کے ہے جن کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ازاں بعد حضور نے (سورۂ لقمان کے آخیر کی) یہ آیت پڑھی اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃ [ الایۃ ] ( خدا ہی کو قیامت کے آنے کا علم ہے اور وہی ایک وقت مقرر پر جس کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مینہ برساتا اور نرو مادہ جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے وہی اس کو جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ خود کل کیا کرے گا اور کوئی شخص یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا اور باخبر ہے) الغرض حدیث مذکورہ صاف طور پر بتارہی ہے کہ اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے اور یہی معنی ہیں آیت قالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَ لٰکِنْ قُولُوْا اَسْلَمْنَا کے ( یعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اے پیغمبر تم ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے) قرآن و حدیث کے اکثر مواقع سے ایمان و اسلام کی باہمی مغائرت اور تضاد کا ثبوت ملتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز لیکن قرآن و حدیث کے اکثر مواقع پر اسلام کا اطلاق ایمان پر بھی ہوا ہے جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں کچھ تفاوت و فرق نہیں جیسا کہ اس آیت میں : اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ( یہاں باتفاق علماء امت اسلام سے ایمان مراد ہے) خلاصہ یہ کہ شرعی اصطلاح میں اسلام کا لفظ ظاہری اعمال اور باطنی افعال دونوں معنوں میں مشترک ہے۔ غیب مصدر ہے اور اس کا تعلق یؤمنون کے ساتھ مبالغۃً ہوا ہے جیسے شہادت کے لفظ کا قال اللہ تعالیٰ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آدمیوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، فرشتے، آدمیوں کا میرے پیچھے زندہ اٹھ کھڑا ہونا، جنت و دوزخ پل صراط۔ میزان عذاب قبر وغیرہ۔ بِالْغَیْبِ اگرچہ بظاہر ترکیباً جار مجرور واقع ہوا ہے لیکن حقیقت میں یؤمنون کا مفعول بہ ہے اور با زائد ہے یا یوں کہو مصدر فاعل کے معنی میں ہے اور یُوْمِنُوْنَکے فاعل سے حال واقع ہوا ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے یُؤْمِنُوْنَ غَاءِبِیْنَ عَنْکُمْ اس بنا پر جملے کے معنی یہ ہونگے کہ متقی وہ صاف باطن لوگ ہیں جو اے مسلمانو ! تم سے غائب ہونے کی حالت میں بھی ویسے ہی ایمان کا دلی اعتراف کرتے ہیں جیسے منہ در منہ اور سامنے وہ ان بد باطن اور دغا باز منافقوں جیسے نہیں ہیں جو مسلمانوں کے سامنے تو ان کی رضا جوئی کے لیے ایمان کا اقرار کرتے ہیں مگر پیٹھ پیچھے صاف انکار کر جاتے ہیں یا یوں کہئے کہ مؤمن بہ ( یعنی رسول اللہ ﷺ سے غائب ہونے کی حالت مراد ہے۔ اس وقت مفعول بہ سے حال ہوگا عبارت کا مطلب صاف ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جس شخص نے جناب نبی کریم ﷺ کو آنکھوں سے دیکھا اور آپ کی پاک صحبت میں حاضر ہوا اس پر آپ کی نبوت آفتاب سے زیادہ واضح اور ظاہر تھی اور اس کا حضور پر ایمان لانا آپ کے دعوے کی تصدیق کرنا قابل تعریف نہ تھا ایمان تو اس شخص کا قابل تعریف اور لائق مدح وثنا ہے جو نادیدہ آپ پر ایمان لایا مجھے اس قادر مطلق خدا کی قسم جس کے سوا کوئی پرستش کا استحقاق نہیں رکھتا کوئی متنفس ایمان میں اس سے بہتر و افضل نہیں ہوسکتا جو بن دیکھے حضور ﷺ پر ایمان لاتا اور آپ کے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے پھر انہوں نے استشہادًا یہ آیتیں یعنی ا ل م ر سے اَلْمُفْلِحُوْنَ تک پڑھیں۔ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ اور نماز پڑھتے ہیں یقیمون کے معنی یحافظون کے ہیں یعنی متقی وہ لوگ ہیں جو نماز کی کماحقہ نگرانی کرتے ہیں اس کی حدود و شرائط بجا لاتے اور ارکان اور صفات ظاہرہ یعنی سنن وآداب اور صفات باطنہ یعنی خشوع و خضوع اور دلی توجہ سے ادا کرتے اور اوقات کی پوری حفاظت کرتے ہیں اس وقت یُقِیْمُوْنَ اَقَامَ الْعُوْدَ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جب کوئی لکڑی کو سیدھا اور سڈول کرلیتا ہے تو عرب اَقَامَ الْعُوْد بولا کرتے ہیں یا یُدِیْمُوْنَ اور یُوَاظِبُوْنَ کے معنی میں ہے یعنی وہ نماز پر ہمیشگی کرتے اور پابندی اوقات کے ساتھ ہمیشہ وقت پر ادا کرتے ہیں اس صورت میں یُقِیْمُوْنَ قَامت السوق سے مشتق ہوگا جب بازار پر رونق اور ترقی پر ہوتا ہے تو اہل محاورہ اسے قامت السوق سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ صلوٰۃ کے اصلی معنی ہیں دعاء اور چونکہ نماز میں دعاء بھی شامل ہوتی ہے اس لیے اسے صلوۃ کہتے ہیں۔ ورش نے صلوٰۃ کی لام کو پُر کرکے پڑھا ہے جبکہ وہ صاد یا طاء یا ظاء کے بعد واقع ہو اور نیز فتح کی حرکت رکھتا ہو جیسے الصلوٰۃ مصلّٰے۔ اظلم۔ الطلاق۔ معطل۔ بطل وغیرہ مگر ورش کے سوا باقی قاریوں نے باریک کرکے پڑھا ہے البتہ لفظ اللہ کے لام کو پُر کرکے پڑھنے میں تمام قراء کا اتفاق ہے بشرطیکہ لام کا پہلا حرف مفتوح یا مضموم ہو۔ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے کچھ راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں رزق کے لغوی معنی ہیں نصیب اور حصہ جیسا کہ آیۃ وَ تجعَلُوْنَ رزقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ میں (رزق سے یہی لغوی معنی حصہ ( بہرہ) مراد ہیں مگر عرف میں رزق کہتے ہیں اس چیز کو جس سے جاندار فائدہ اٹھائے۔ رہا انفاق اس کے اصلی معنی کسی چیز کو ہاتھ سے یا ملک سے نکال دینے کے ہیں اور اسی سے نفاق السوق لیا گیا ہے یعنی رائج اور پر رونق بازار اور یہ اس لیے کہ بازار میں مال و اسباب نکالا جاتا اور بیع کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن اصطلاح میں انفاق کہتے ہیں نیک راہ میں مال صرف کرنے کو۔ یہ جملہ ان مشرکین عرب کے بارے میں نازل ہوا ہے جو جناب نبی عربی ﷺ پر ( بےردو کد) ایمان لائے تھے۔
Top