Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 234
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُتَوَفَّوْنَ : وفات پاجائیں مِنْكُمْ : تم سے وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑ جائیں اَزْوَاجًا : بیویاں يَّتَرَبَّصْنَ : وہ انتظار میں رکھیں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے آپ کو اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّعَشْرًا : اور دس دن فَاِذَا : پھر جب بَلَغْنَ : وہ پہنچ جائیں اَجَلَهُنَّ : اپنی مدت (عدت) فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : میں۔ جو فَعَلْنَ : وہ کریں فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِنَّ : اپنی جانیں (اپنے حق) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو اس سے خَبِيْرٌ : باخبر
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ اور جب (یہ) عدت پوری کرچکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ( اور جو تم میں سے مرجائیں) توفی کے معنی ایک شے کو بتمامہ حاصل کرنے کے ہیں یعنی وہ اپنی عمریں پوری کرلیں۔ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ ( اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ رکیں) یعنی انتظار کریں اس میں ضمیر بیویوں کی طرف ہے یعنی ان مردوں کی بیویاں انتظار کریں اور مبتدا پر سے مضاف محذوف ہے یعنی وازواج الذین یتوفون یتربصن بعدہم۔ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا (اپنے کو چار مہینے اور دس دن) لفظ عشر کو مؤنث ذکر کرنا لیالی کے اعتبار سے ہے کیونکہ لیالی سے ہی مہینوں اور دنوں کی ابتدا ہوتی ہے، عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی عدد کو لیالی اور ایام میں مبہم کرنا منظور ہوتا ہے تولیالی کو ایام پر غلبہ دے کر لیالی کا استعمال کرتے ہیں اور ایسے موقعہ میں مذکر کا استعمال نہیں کرتے چناچہ کہتے ہیں : صمت عشر (قرآن شریف میں ہے : ان لبثتم الا عشرًا اور آگے فرمایا ہے : ان لبثتم الا یوما یہ آیت حاملہ وغیرہ سب عورتوں کو شامل تھی پھر اسکا حکم حاملہ عورتوں کے بارے میں اللہ کے اس قول سے منسوخ ہوگیا : واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملہن یعنی حاملہ عوتوں کی عدت یہی ہے کہ وہ اپنے حملوں کو جن لیں) ابن مسعود کا قول ہے کہ میں ہر شخص سے ( اس بارے میں) مباہلہ کرسکتا ہوں کہ چھوٹی سورة نساء یعنی سورة طلاق بڑی سورة نساء یعنی سورة بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے اور اسی پر اجماع ہوگیا ہے مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کو نفاس آگیا یعنی ان کے شوہر کے مرنے سے چند ہی روز کے بعد ان کے بچہ پیدا ہوگیا وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں اور نکاح کرنے کی آپ ﷺ سے اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی انہوں نے فوراً نکاح کرلیا یہ روایت بخاری نے نقل کی ہے اور صحیحین میں بھی سبیعہ کی حدیث اسی طرح ہے اور ام سلمہ کی سند سے بھی مروی ہے اور نسائی نے نقل کیا ہے کہ سبیعہ کے شوہر کے مرنے سے پندرہ روز کے بعد ان کے بچہ پیدا ہوگیا تھا اور بخاری کی روایت میں چالیس روز کے بعد ہے ایک اور روایت میں دس رات کے قریب مذکور ہیں اور امام احمد نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے تھے کہ ان کے شوہر کے مرنے سے پندرہ روز کے بعد بچہ ہوگیا تھا حضرت علی ور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایسی عورت اس عدت کو پوری کرے جو دونوں میں بڑی ہو ( یعنی اگر چار مہینے دس دن سے زیادہ میں بچہ ہونے والا ہے تب تو بچہ کے پیدا ہونے کی عدت پوری کرے اور اگر اس سے کم میں ہونے والا ہے تو چار مہینے دس دن کی عدت گذارے) یہ روایت ابوداؤد لے اپنے ناسخ میں ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے عمر ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر عورت کے بچہ پیدا ہوجائے اور اس کے شوہر کا ابھی جنازہ ہی رکھا ہو تب بھی اس کی عدت پوری ہوگئی یہ روایت امام مالک ور امام شافعی اور ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے۔ مسئلہ جس باندی کا شوہر مرجائے اس کی عدت بالاجماع دو مہینے اور پانچ دن ہیں۔ فصل مرنے کی عدت میں سو گ کرنا بالاجماع واجب ہے سوائے اس کے کہ حسن اور شعبی سے یہ منقول ہے کہ واجب نہیں اور رجعی طلاق کی عدت میں بالاجماع سوگ نہ کرنا چاہئے اور بائنہ طلاق کی عدت میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں واجب ہے اور امام مالک فرماتے ہیں واجب نہیں اور امام شافعی اور امام احمد سے بھی ایسے ہی دو قول منقول ہیں ہمارے نزدیک صغیرہ ( یعنی چھوٹی بچی) پر سوگ نہیں ہے کیونکہ وہ مکلف نہیں اور نہ ذمیہ عورت پر ہے کیونکہ وہ شریعت کے احکام کی مخاطبہ نہیں ہے۔ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ان دونوں پر بھی واجب ہے۔ سوگ کرنا اسے کہتے ہیں کہ خوشبو ‘ سرمہ اور مہندی نہ لگائے نہ بناؤ سنگار کرے اور نہ سنگار کرنے کے لیے کسم اور زعفران وغیرہ کے رنگے ہوئے اور حریر اور دیباج کے کپڑے پہنے اور نہ سر کو اور بدن کو تیل لگاء خواہ خوشبودار ہو یا بےخوشبو کا ہو امام شافعی فرماتے ہیں کہ سر کے سوا اور بدن پر خوشبو دار تیل لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پس اگر کسی عورت کو سرمہ لگانے کی بہت ہی سخت ضرورت ہو تو ایسی صورت میں اکثر علماء نے اس کی اجازت دیدی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ رات کو سرمہ لگایا کرے اور دن کو اسے پونچھ دیا کرے اسی طرح کسی عذر کی وجہ سے خضاب وغیرہ بھی کوئی حرج نہیں ہے اور رجعی اور بائنہ طلاق والیوں کو اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے نہ رات کو اور نہ دن کو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : و لا تخرجوھن من بیوتہن و لا یخرجن ( یعنی اور نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں) اور جس کا شوہر مرگیا ہو وہ دن میں یا کسی وقت رات کو باہر نکل سکتی ہے اور ساری رات غیر گھر میں نہ رہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جس کا شوہر مرگیا ہو اس کو باہر نکلنا مطلقاً جائز ہے ( خواہ دن ہو خواہ رات ہو اور بائنہ ( طلاق) والی) کے لیے دن کو نکلنا جائز ہے عطا کا قول ہے کہ میراث کی آیت نے (عورت کے لیے) گھر مقرر ہونے کو منسوخ کردیا ہے اس لیے وہ جہاں چاہے عدت گذارے سوگ کرنے کا وجوب امّ حبیبہ اور زینب بنت جحش کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : لا یحل لامرأۃ من تو من باللہ والیوم الآخر ان تحد علی میت فوق ثلٰث لیال الا علٰی زوج اربعۃ اشہر و عشرا ( یعنی جو عورت اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے سوائے خاوند پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرنے کے) یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کسی عورت کو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے سوائے خاوند پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرنے کے اور اس سوگ میں نہ وہ رنگا ہوا کپڑا پہنے ‘ نہ سرمہ لگائے ‘ نہ خوشبو لگائے ‘ ہاں جب پاک ہوجائے تو تھوڑا سا قسط یا اظفار استعمال میں لے آئے۔ یہ حدیث ( بھی) متفق علیہ ہے اور ابو داؤد نے یہ زیادہ بیان کیا ہے کہ نہ وہ خضاب کرے۔ ام سلمہ فرماتی ہیں ایک عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئی ‘ عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میری بیٹی بیوہ ہوگئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں کیا ہم اس کے سرمہ لگادیں ؟ فرمایا : نہیں پھر اس نے دو یا تین دفعہ پوچھا آپ ہر دفعہ یہی جواب دیتے رہے کہ نہیں پھر فرمایا کہ اب تو یہ عدت کل چار مہینے اور دس ہی دن ہے پہلے تو تمہاری یہ حالت تھی کہ بیوہ پر سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنیاں ماری جاتی تھیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ام سلمہ ہی فرماتی ہیں کہ ( میرے شوہر) ابو سلمہ کا انتقال ہونے کے بعد رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے میں نے اس وقت اپنے چہرہ پر ایلوہ مل رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ام سلمہ یہ کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا : حضرت ﷺ یہ ایلوہ ہے ‘ اس میں کچھ خوشبو نہیں ہے۔ فرمایا اس سے چہرہ پر رونق آجاتی ہے ‘ اس لیے اسے تم بس رات کو لگا لیا کرو اور دن کو اتار دیا کرو۔ کسی خوشبو کو نہ لگانا اور نہ مہندی لگا نا کیونکہ یہ خضاب ہے۔ میں نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ ! پھر کنگھی میں اور کون سی چیز لگا کے کروں ؟ فرمایا کہ بس بیری کے پتوں سے سر دھو لیا کرویہ حدیث ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے ام سلمہ ہی آنحضرت ﷺ سے روایت کرتی ہیں آپ نے فرمایا : المتوفی عنہا زوجہا لا تلبس المص فرمن الثیاب ولا الممشقۃ ولا الحلی ولا تختضب و لا تکتحل ( یعنی بیوہ عورت نہ کسمی کپڑے پہنے اور نہ گلابی اور نہ زیور پہنے اور نہ خضاب کرے اور نہ سرمہ لگائے) یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے زینب بنت کعب سے روایت ہے کہ مالک بن سنان کی بیٹی فریعہ جو ابو سعید خدری کی بہن تھی یہ بیان کرتی تھی کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس امر کی اجازت لینے کے لیے گئی کہ میں اپنے میکے بنی حذرہ میں چلی جاؤں کیونکہ میرا شوہر اپنے غلاموں کو ڈھونڈنے گیا تھا ان غلاموں نے اسے وہیں مار ڈالا میں (حضرت کی خدمت میں پہنچی اور میں) نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے میکے چلی جاؤں کیونکہ میرے شوہر نے تو میرے لیے اپنا کوئی مکان بھی نہیں چھوڑا اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے حضرت نے فرمایا ہاں ( چلی جاؤ) اور جب میں آنے لگی تو حجرہ یا مسجد تک آئی تھی کہ مجھے پھر بلایا اور فرمایا جب تک عدت پوری نہ ہوجائے تم اپنے گھر ہی میں رہو۔ کہتی ہیں پھر چار مہینے اور دس دن تک میں عدت میں رہی۔ یہ روایت امام مالک نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور ترمذی ‘ ابو داؤد ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی نے نقل کی ہے اور حاکم نے دو طریقوں سے نقل کی ہے اور صراحت کی ہے کہ دونوں طریقوں سے اس کی سند صحیح ہے اور ترمذی نے اسے حدیث صحیح کہا ہے اور ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ حدیث مشہور ہے اور علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو دارقطنی نے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک بیوہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ جہاں چاہے عدت گزار لے بعض نے اس حدیث کی بابت کہا ہے کہ سوائے ابو مالک اشجعی کے اور کسی نے اسے مرفوع نہیں بیان کیا اور ابو مالک ضعیف ہے ابو قطان نے کہا ہے کہ ( اس کی سند میں) محبوب بن محرر ( راوی) بھی ضعیف ہے اور عطا ابن سائب مختلط ہے اور ابوبکر بن مالک ان سب سے زیادہ ضعیف ہے، اسی واسطے دارقطنی نے بھی اسے معلل کہا ہے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ اگر میت (یعنی عورت کے مرے ہوئے شوہر) کے مکان میں سے اس عورت کا اتنا ہی حصہ ہے کہ وہ اس کافی نہیں ہوتا اور باقی ورثہ اپنے حصہ میں سے اسے نکالتے ہیں تو یہ عورت وہاں سے چلی آئے کیونکہ یہ آنا ایک عذر کی وجہ سے ہے اور عبادات میں عذر کا اثر ہوتا ہے پس یہ ایسی صورت ہوگئی کہ جیسے کسی عورت کو مکان کے گرنے کا ڈر ہو یا وہ کرایہ پر رہتی تھی اور کرایہ دینے کو کچھ نہیں ہے۔ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَہ بالْمَعْرُوْفِ (پھر جب وہ اپنی مدت پوری کر چکیں ( یعنی ان کی عدت ختم ہوجائے) تو ( اے ائمہ اور مسلمانو ! ) تم اس پر اس کا کچھ گناہ نہیں جو وہ اپنے نفسوں میں دستور کے مطابق کریں ( یعنی زینت کرنا اور نکاح کرنا اور باہر جانا وغیرہ) معروف سے یہ مراد ہے کہ ایسے طریقہ پر کریں جو شریعت 1 ؂ کے خلاف نہ ہو اور اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر وہ کچھ خلاف شریعت کریں تو مسلمانوں پر انہیں روکنا لازم ہے کیونکہ خلاف سریعت سے روک دینا واجب ہے اگر اس میں وہ کوتاہی کریں گے تو انہیں گناہ ہوگا۔ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ (اور اللہ تمہارے کاموں سے با خبر) پس وہ تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں جزا دیگا۔
Top