Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو
شَهْرُ رَمَضَانَ ( رمضان کا مہینہ) یہ یا تو مبتدا ہے اور خبر اس کے بعد ہے اور یا مبتداء محذوف ذالک کی خبر ہے اور صورت اخیر میں معنی یہ ہوں گے یہ مہینہ رمضان کا ہے اور یا بدل ہے الصیام سے جو صدر رکوع میں مذکور ہے بحذف مضاف اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے مقرر کئے گئے تم پر روزے ماہ رمضان کے اور یہ ترکیب جب ہوگی جس وقت یہ آیت : یا ایھا الذین اٰمَنُوا کتب عَلَیْکُم الصِّیام کے ساتھ نازل ہوئی اور اگر اس سے ایک مدت کے بعد نازل ہوئی ہو اور اس کی ناسخ ہو تو اس وقت یہ ترکیب نہ ہوگی لفظ شہر شہرت سے مشتق ہے اور رمضان رمض بمعنی احترق ( جل گیا) سے مشتق ہے پھر اس کی طرف شہر مضاف کرکے ایک خاص مہینے کا علم بنا دیا گیا علمیت اور الف و نون زائدہ کی وجہ سے لفظ رمضان غیر منصرف ہے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ رمضان کو رمضان اس واسطے کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کو رمض کردیتا ہے یعنی جلا دیتا ہے اس حدیث کو اصبہانی نے ترغیب میں روایت کیا ہے۔ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ( ایسا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا) قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ قراء کے معنی لغت میں جمع کرنے کے ہیں چونکہ قرآن پاک میں بھی سورتیں اور آیتیں اور حروف اور قصے اور امر و نہی اور وعدہ وعید جمع کئے گئے ہیں اس لیے اس کا نام بھی قرآن رکھ دیا اور یا قرأت سے اس کو مشتق مانا جائے اس وقت قرآن بمعنی مقروء ( پڑھا گیا) ہوگا ابن کثیر نے القراٰن قرانا، قراٰنہ کو جہاں کہیں واقع ہوں ہمزہ کو حذف کرکے اور اس کی حرکت را کو دے کر پڑھا ہے اور حمزہ نے حالت وقف میں ابن کثیر کا اتباع کیا ہے اور ان کے سوا دیگر قراء نے ہمزہ سے پڑھا ہے۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ شافعی (رح) لفظ قرآن کو بغیر ہمزہ کے پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ لفظ قراءت سے مشتق نہیں بلکہ کتاب اللہ کا نام ہے جیسے توراۃ و انجیل نام ہیں۔ علامہ بغوی (رح) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مقسم فرماتے ہیں کہ کسی نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد موقعوں میں قرآن شریف کے نزول کا حال مختلف طور سے بیان فرمایا چناچہ اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک رمضان میں نازل ہوا ہے اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے اور ایک اور موقع پر فرماتے ہیں کہ ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں اتارا ہے حالانکہ تمام مہینوں میں نازل ہوا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : قرآناً فرقناہ یعنی قرآن کو ہم نے متفرق طور سے نازل کیا ہے یہ کیا بات ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قرآن سب کا سب لوح محفوظ سے رمضان کے مہینہ کی لیلۃ القدر میں آسمان دنیا کے بیت العزت میں نازل ہوا پھر جبرئیل ( علیہ السلام) رسول اللہ کے پاس تھوڑا تھوڑا بیس برس میں بتدریج لائے آیۃ کریمہ : بمواقع النجوم کے بھی یہی معنی ہیں اور داؤد بن ابی ھند فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں اتارا گیا ہے کیا تمام سال میں نہیں نازل ہوا فرمایا کیوں نہیں تمام سال ہی میں نازل ہوا ہے۔ رمضان میں نازل ہونے کو اس لیے فرمایا ہے کہ جس قدر نازل ہو چکتا تھا اس مہینے میں جبرئیل ( علیہ السلام) اس کا دور کرتے تھے پس جس مقدار کو اللہ تعالیٰ چاہتے تھے محکم اور ثابت رکھتے تھے اور جتنا چاہتے تھے بھلا دیتے تھے اور ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے 3 رمضان کو اور ایک روایت کے موافق یکم رمضان کو نازل ہوئے اور تورات موسیٰ ( علیہ السلام) پر 6 رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل عیسیٰ ( علیہ السلام) پر 13 رمضان کو نازل ہوئی اور ذبور حضرت داؤد ( علیہ السلام) پر 18 رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن پاک محمد ﷺ پر رمضان کی اخیر چھ راتوں میں نازل ہوا۔ امام احمد اور طبرانی نے واثلہ بن الاسقع سے روایت کیا ہے کہ ابراہیم کے صحیفے رمضان کی اوّل رات میں نازل ہوئے اور تورات 6 رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل 13 رمضان کو نازل ہوئی وا اللہ اعلم شھر رمضان اگر مبتدا ہو تو الذی اپنے صلہ سے مل کر اس کی خبر ہوگا اور اگر مبتدا محذوف کی خبر ہو یا بدل ہو تو موصول صلہ سے مل کر شہر رمضان کی صفت قرار دیا جائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مبتدا کی صفت ہو اور خبر فمن شھد ہو اور مبتدا چونکہ معنی شرط کو متضمن ہے اس لیے خبر پر فا لائے اور اس تقدیر پر انزل فیہ القرآن کے معنی یہ ہوں گے کہ ماہ رمضان جس کی شان میں قرآن نازل کیا گیا ہے قرآن سے مراد آیت کتب علیکم الصیام ( فرض کیے گئے تم پر روزے) ہوگی اور یہ اس لیے تفسیر کی گئی تاکہ قرآن کے نازل ہونے کو روزے کے واجب ہونے سے کچھ خصوصیت حاصل ہو ( کیونکہ اگر یہ معنی رکھے جائیں جو اوّل لکھے گئے ہیں۔ تو اس مبتداء کی خبر یعنی فمن شھد جس سے وجوب صوم مستفاد ہوتا ہے اس کو نزول قرآن سے کچھ تعلق نہ ہوگا۔ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ ( جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت اور امتیاز حق و باطل کے صاف صاف حکم ہیں) یعنی قرآن اپنے اعجاز سے گمراہی سے نکالتا ہے اور قرآن میں ایسی آیات واضح ہیں کہ وہ حلال حرام اور حدود اور احکام کی طرف راہ دکھاتی ہیں اور حق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور باطل جو شیاطین انس و جن کی جانب سے ہے دونوں میں فصل اور فرق کرتی ہیں اور ھدٰی اور الفرقان دونوں القراٰن سے حال ہیں۔ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ ( سو جو شخص تم میں سے یہ مہینہ پائے) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں سے مہینہ رمضان کا پائے اور تندرست اور مقیم ہو اور حیض و نفاس سے پاک و صاف ہو وہ روزے رکھے تندرست اور مقیم کو تو ہم نے اس لیے استثناء کیا ہے کہ اگلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض اور مسافر کو افطار کی اجازت ہے اور حیض و نفاس سے پاک ہونے کی شرط احادیث مشہور سے لگائی گئی اور نیز اس پر اجماع بھی منعقد ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ سے پوچھا یا رسول اللہ عورتوں کے دین میں کیا کمی ہے آپ نے فرمایا دیکھتی نہیں ہو کہ جب حیض آتا ہے تو روزہ نماز کچھ نہیں کرسکتیں۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ فائدہ سب علماء نے اجماع کیا ہے کہ حیض والی عورت پر روزہ حرام ہے اور اگر رکھ لے تو صحیح نہیں اور قضا لازم ہے۔ واللہ اعلم فَلْيَصُمْهُ ( تو ضرور اس کے روزے رکھے) یعنی روزہ رکھنا چاہئے جیسے شروع اسلام میں فدیہ کافی تھا اب کافی نہیں۔ علامہ بغوی (رح) نے فرمایا ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور رمضان کا مہینہ آجائے پھر اس نے سفر کیا تو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا اس کو افطار کرنا جائز ہے یا نہیں حضرت علی سے تو یہ منقول ہے کہ افطار جائز نہیں۔ اور عبیدہ سلمانی کا بھی یہی قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : فَمَنْ شَھد منکم الشھر فلصیم یعنی جو تم میں رمضان کا مہینہ پائے اور وہ تندرست اور مقیم ہو تو روزہ رکھے یعنی تمام ماہ کے روزے رکھے اور اکثر صحابہ اور فقہا یہ کہتے ہیں کہ جب ماہ رمضان میں سفر کرے تو اس روز تو افطار جائز نہیں اس کے بعد افطار جائز ہے میں کہتا ہوں کہ اسی پر اجماع منعقد ہے اور اس صورت میں فلیصمہ کے معنی یہ ہیں کہ جتنے دن پائے روزہ رکھے اگر تمام مہینہ پائے تمام مہینے روزہ رکھے اور کچھ دن پائے تو اس میں روزہ رکھے اس تفسیر کی تائید حضرت جابر اور ابن عباس کی یہ حدیث کرتی ہے کہ رسول اللہ فتح مکہ کے سال مکہ تشریف لے گئے اور رمضان کے دن تھے اور آپ ﷺ نے روزہ رکھا جب آپ کدید پہنچے تو روزہ افطار کیا اور لوگوں نے بھی افطار کیا اور صحابہ ؓ جناب رسول اللہ کے پچھلے سے پچھلے فعل و قول پر عمل کیا کرتے تھے۔ مسئلہ اگر کوئی شخص اوّل دن میں مقیم ہو اور پھر سفر کرے تو اس کو اس دن امام ابوحنیفہ (رح) اور مالک اور شافعی (رح) اللہ کے نزدیک اس آیت کی وجہ سے افطار جائز نہیں کیونکہ اس نے اول دن کو تو پالیا اس لیے روزہ رکھنا چاہئے اور امام احمد اور داؤد ظاہری کہتے ہیں کہ اس دن بھی افطار جائز ہے اور دلیل اس کی علامہ ابن جوزی ابن عباس ؓ کی گذشتہ حدیث کو ( کہ جس میں یہ ہے کہ جب جناب سرور کائنات ﷺ کراع غمیم میں پہنچے تو آپ ﷺ نے افطار کیا) لائے ہیں اور نیز ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے رمضان میں سفر کیا جب آپ عسفان میں پہنچے تو ایک پیالہ پانی منگایا تاکہ سب کو دکھادیں اور پیا پھر سفر سے واپسی تک آپ ﷺ برابر ناغہ فرماتے رہے ( ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی اوّل دن میں مقیم اور روزہ دار ہو پھر اسی دن سفر کرے تو افطار جائز ہے) ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ان دونوں قصوں میں جناب رسول اللہ اس روز شروع دن میں مقیم نہ تھے کیونکہ موضع کراع غمیم اور عسفان مدینہ کی اوّل ہی منزل میں واقع تھے۔ مسئلہ اگر مریض یا مسافر نے حالت مرض یا سفر میں روزہ رکھ لیا اور پھر افطار کا ارادہ کیا تو امام احمد کے نزدیک جائز ہے۔ صاحب منہاج نے کہا ہے کہ شافعی (رح) کا بھی یہی مذہب ہے اور ابن ہمام کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو افطار اس وقت جائز ہے کہ جب روزہ کی نیت نہ کی ہو اور اگر رات ہی میں نیت کرچکا ہے اور صبح اس حالت میں کی ہے کہ قبل از فجر اپنے ارادہ کو اس نے توڑا نہیں تو وہ روزہ دار ہے اس کو اس دن افطار جائز نہیں لیکن اس پر بھی اگر افطار کیا تو کفارہ نہیں جیسا گذشتہ مسئلہ میں کفارہ نہیں اور کراع غمیم والی حدیث اس مسئلہ میں امام احمد اور شافعی (رح) اللہ کے لیے حجت ہے۔ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ( اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو لازم ہے گنتی دوسرے دنوں سے) اس حکم کو مکرر اس لیے بیان فرمایا کہ یہ معلوم ہو کہ فدیہ منسوخ ہے اور معذور کے لیے افطار اور قضا کرنا منسوخ نہیں اور اگر فدیہ کا حکم منسوخ نہ ہوتا اور ایامًا معدودات سے مراد صرف رمضان ہی کا مہینہ ہوتا تو البتہ مریض اور مسافر کے حکم کو مکرر بیان فرمانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ فائدہ قضا واجب ہونے کے حکم میں حائضہ اور نفساء بھی اجماع اور احادیث کی رو سے مریض اور مسافر کی طرح ہیں چناچہ معاذہ عدویہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ صدیقہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ حیض والی عورت روزہ کی تو قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ زمانہ نبوی میں ہم کو حیض آتا تھا تو ہم کو روزہ ہی کی قضا کا حکم تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہ تھا۔ مسئلہ اس آیت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسافر جب مقیم ہو اور مریض جب تندرست ہو تو بعد رمضان جتنے دنوں تک مریض تندرست رہا اور مسافر جب مقیم رہا ان دنوں کی قضا لازم ہے مثلاً کسی کے مرض یا سفر کی وجہ سے دس روزے فوت ہوئے اور بعد رمضان کے وہ دو دن تندرست یا مقیم رہا تو صرف ان ہی دو دن کی قضا لازم ہے اس میں اختلاف ہے کہ جس نے رمضان کے سوا اور دن پائے اور روزے قضا نہ کئے اور مرگیا تو آیا وارث پر فدیہ یا قضا واجب ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور مالک (رح) تو فرماتے ہیں کہ وارث پر کچھ لازم نہیں لیکن ہاں اگر میت فدیہ کی وصیت کر مرے تو تہائی مال سے وصیت کو جاری کرنا واجب ہے اور تہائی سے زیادہ میں بغیر وارثوں کی رضا کے تصرف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمہ نذر یا کفارہ کے روزے ہوں وہ اگر وصیت کر مرے تو تہائی ترکہ میں وصیت جاری ہوسکتی ہے۔ امام شافعی کا قدیمی قول تو یہ ہے کہ خواہ رمضان کے روزے ہوں یا نذر وغیرہ کے ہوں میت کی طرف سے ولی روزے رکھے اور جدید اور آخری قول یہ ہے کہ اس کی طرف سے اس کا ولی کھانا کھلائے اور امام احمدرمضان کے روزوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کھانا کھلایا جائے اور روزے رکھنا کافی نہیں اور اگر روزے نذر کے ہوں تو ولی روزے رکھدے ولی کے ذمہ روزے واجب ہونے پر ابن عباس ؓ کی حدیث پیش کرتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت جناب رسول ﷺ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور اسے نے عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں مرگئی ہے اور اس کے ذمہ ایک مہینے کے روزے ہیں اب میں اس کی طرف سے روزے رکھدوں حضور ﷺ نے فرمایا کہ بھلا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہو تو تو ادا نہ کرے گی اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیوں نہیں ضرور ادا کروں گی فرمایا پھر اللہ کا فرض تو اور زیادہ ادا کے قبل ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور حضرت بریدہ ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ کی خدمت سراپا برکت میں آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں اگر میں روزے رکھوں تو کیا اس کی طرف سے ادا ہوجائیں گے ؟ فرمایا ہاں اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے دریا کا سفر کیا اور یہ نذر کی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس سے نجات دے دی تو میں ایک مہینے کے روزے رکھوں گی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کو نجات دے دی اس نے وہ روزے نہ رکھے حتیٰ کہ وہ مرگئی اس کی کسی رشتہ دار عورت نے یہ قصہ فخر عالم ﷺ کی خدمت بابرکت میں ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اس کی طرف سے روزے رکھدے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ ؓ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میری ماں کے ذمے ایک نذر تھی اور وہ بغیر کئے مرگئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طرف سے ادا کردے۔ ان احادیث میں سے بعض میں نذر کا صریح زکر ہے اور بعض مطلق ہیں ان میں نذر کا ذکر نہیں اب امام احمد نے تو فرمایا ہے کہ نذر کی صورت میں ولی پر روزہ واجب ہے اور جس حدیث میں نذر کا ذکر نہیں اس کو بھی صوم نذر ہی پر محمول کریں گے۔ میں کہتا ہوں کہ جب الفاظ حدیث کے مطلق ہیں اور نذر کی اس میں قید نہیں پائی جاتی تو اس کو نذر پر حمل کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ یہ احادیث صحیح جو مذکور ہوئیں ہیں یہ تو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ولی کو میت کی طرف سے مطلقاً روزہ رکھنا جائز ہے خواہ وہ روزہ نذر کا ہو یا رمضان کا اور کوئی حدیث ان میں سے اس پر دلالت نہیں کرتی کہ وارث پر روزہ واجب ہے اس لیے یہ احادیث امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کو کچھ مضر نہیں اور خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ولا تذروا وازرۃ وزرا اخرٰی ( یعنی کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا) اور اس صورت میں اس آیت کے خلاف لازم آتا ہے کیونکہ اگر میت کی طرف سے وارث روزہ نہ رکھے تو واجب کا ترک ہوا اور واجب کے ترک میں عقاب ہوتا ہے تو دوسرے کے فعل سے اس کا ماخوذ ہونا لازم آتا ہے اور جو لوگ میت کی طرف سے کھانا کھلانے کو فرماتے ہیں ان کی دلیل ابن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ ہم اس حدیث کی سند سوائے اس سند کے کہ جس میں اشعث بن سوار راوی ہے اور کوئی نہیں جانتے اور اشعث بن سوار کچھ نہیں اور اس میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ بھی راوی ہے اور وہ بھی ضعیف اور مضطرب الحدیث ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ابن عمر ؓ پر موقوف ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) ولی کے روزے رکھنے اور کھانا کھلانے کو جو ناکافی سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ طاعت میں نیابت جاری نہیں ہوتی کیونکہ طاعت سے نیت اور امتثال حکم خداوندی مقصود ہے اور یہ نیت اور امتثال ہی ثواب اور عقاب کا مدار ہے اور وارث پر روزہ یا مال واجب ہونے کو حق تعالیٰ کا قول : ولا تزر وازرۃ وزر اخرٰی صاف منع کر رہا ہے اس لیے وارث پر کچھ واجب نہیں ہاں اگر میت وصیت کرے تو اس کی وصیت کو پورا کرنا واجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : من بعد وصیۃ یوصیٰ بھا اور دین یعنی میراث بعد وصیت یا فرض کے ہے کہ میت وصیت کرے اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ روزے کے عوض اس کو قبول فرمالیں ‘ وا اللہ اعلم۔ میں کہتا ہوں کہ تحقیق مقام یہ ہے کہ اگر وارث میت کی طرف سے بطور تبرع و احسان روزہ رکھ دے یاصدقہ دے دے تو حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو قبول فرمالیں گے اور میت کو خلاصی بخشیں گے لیکن یہ وارث کے ذمہ واجب نہیں جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں چناچہ بزار نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر چاہے تو ولی میت کی طرف سے روزہ رکھ دے۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ولی کے ذمہ واجب نہیں لیکن اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ یہ ابن لھیعہ کے طریق سے مروی ہے۔ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ( اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تم پر آسانی کرنی اور نہیں چاہتا ہے سختی) یعنی اللہ تعالیٰ تم پر سہولت کا ارادہ کرتے ہیں چناچہ اسی واسطے مرض اور سفر میں فطر اور قضا کو مباح فرمایا ابو جعفر نے العسر اور الیسر کو بضم سین پڑھا ہے اور باقی قراء نے سین کو ساکن کرکے پڑھا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض اور مسافر کے لیے افطار کرنا بوجہ سہولت کے رخصت ہے عزیمت نہیں ہے حتیٰ کہ اگر مریض اور مسافر روزہ رکھ لیں تو سب کے نزدیک صحیح ہے لیکن ابن عباس اور ابوہریرہ و عروہ بن الزبیر و علی بن الحسن ؓ سے مروی ہے کہ سفر میں روزہ جائز نہیں اور اگر کوئی روزہ رکھ لے تو اس پر قضا واجب ہے اس قول کی دلیل آیت : فعدۃ من ایام اخر ( اس پر گنتی ہے اور دنوں سے) ہے اس لیے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے اور دنوں میں ہی روزہ رکھنے کو مشروع فرمایا ہے اگر رمضان میں رکھ لیا تو گویا قبل از وجوب رکھا اس لیے جائز نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ سبب وجوب ماہ رمضان ہے اور سفر وجوب ادا کو مانع ہے نفس وجوب کو مانع نہیں اس لیے اگر رمضان میں مسافر نے روزہ رکھا تو وجوب کے بعد ہی رکھا اس لیے صحیح ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے سال گذرنے سے پیشتر زکوٰۃ ادا کردی اور جمہور کے مذہب کی تائید ابو سعید کی حدیث کرتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ہمراہ رمضان کی 16 تاریخ کو غزوہ میں گئے بعض نے تو ہم میں سے روزہ رکھا اور بعض نے افطار کیا تو جو روزہ دار تھے انہوں نے روزہ رکھنے والوں کو عیب اور طعنہ نہیں دیا اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں نے روزہ داروں کو کچھ کہا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور اس مضمون کی حدیث جابر اور انس ؓ سے بھی مروی ہے جابر ؓ کی حدیث تو مسلم میں ہے اور انس ؓ کی موطا میں۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ( اور تاکہ تم گنتی پوری کرو) العدۃ میں الف و لام مضاف الیہ کے عوض ہے تقدیر عبارت کی یہ ہے : عدۃ شھر رمضان بقضاء ما افطر منہ ( یعنی تاکہ ماہ رمضان کی شمار افطار کئے ہوئے روزوں کو قضا کرکے پوری کرلو۔ ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اس لیے بغیر چاند دیکھے روزہ نہ رکھو اور نہ بغیر دیکھے افطار کرو اور اگر انتیس کو چاند نہ دکھائی دے تو پورے تیس دن کرلو۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے ابوبکر نے ولتکملوا کو تشدید میم سے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے تخفیف سے پڑھا ہے ولتکملوا العدۃ کا مع اپنے معطوف ولتکبروا .... کے الیسر پر عطف ہے یا تو اس وجہ سے کہ الیسر باعتبار معنی کے ما قبل کی علت ہے اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ ہم نے یہ احکام یعنی مریض اور مسافر کے لیے افطار کو مباح کرنا اور مرض کے ایام کی قدرقضا واجب کرنا اس لیے مشروع کردیئے تاکہ تم پر سہولت ہو اور تاکہ تم ماہ رمضان کے دنوں کی گنتی افطار ( کئے ہوئے روزوں کو قضا کرکے پوری کرلو۔۔ ) یا لتکملوا کے لام کو تاکید کے لیے زائد کیا جائے اور تکملوا کا بتقدیر ان الیسر پر عطف مانا جائے اور تکملوا کو یرید کا مفعول گردانا جائے اس تقدیر پر یہ حاصل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم پر سہولت کا ( اور اس امر کا کہ تم ماہ رمضان کی گنتی قضا سے پوری کرلو اور اس بات کا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر کرو) ارادہ کرتے ہیں۔ یا لتکملوا کو فعل محذوف کے متعلق کیا جائے اور اس فعل کا یرید اللہ ..... پر عطف کہا جائے اس بنا پر یہ مطلب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سہولت کا ارادہ فرماتا ہے اور تم کو قضا کا حکم فرماتا ہے تاکہ تم ماہ رمضان کی شمار پوری کرلو۔ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ ( اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ اس نے تم کو سیدھی راہ دکھائی) علی ما ھداکم میں ما یا تو مصدریہ ہے یا موصولہ اگر مصدریہ ہو تو یہ معنی ہوں گے تاکہ تم اللہ کی ہدایت کرنے اور راہ بتانے پر اس کی بڑائی کرو “ اور اگر موصولہ ہو تو یہ حاصل ہوگا کہ تم اللہ کی بڑائی ان اشیاء پر کرو جن کی تم کو رہنمائی کی ہے اور جن کے ذریعہ سے تم اپنے پروردگار کی رضا حاصل کرسکتے ہو اور اپنے ذمہ کو فارغ کرسکتے ہو اور بہت بڑے ثواب کی دولت لے سکتے ہو۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ : لتکبروا اللہ ...... سے مراد عید الفطر کی رات کی تکبیرات ہیں۔ امام شافعی نے ابن مسیب اور عروہ اور ابی سلمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگوں کی عادت تھی کہ عید الفطر کی رات میں تکبیرات پکار پکار کر پڑھتے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ خود عید الفطر کے دن کی تکبیرات مقصود ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے تکبیر سے مراد عید کی نماز ہو یا عید کی نماز کی تکبیرات ہوں پس اس تقدیر پر اس آیت سے یہ مستنبط ہوا کہ تکبیرات عید کی واجب ہیں اور خود نماز بھی بالالتزام واجب ہے کیونکہ صرف تکبیرات نماز سے باہر عید کی رات یا دن میں کسی کے نزدیک واجب نہیں اس لیے ہم ان تکبیرات کو یا تو نماز عید کی تکبیرات پر محمول کریں گے اور یا جزو کا نام کل کو دینے کے طور پر خود نماز عید اس سے مراد لیں گے جیسے آیت : و قُرْاٰنَ الْفجر سے صبح کی نماز اسی طریق سے مراد ہے وا اللہ اعلم اور چونکہ آیت کے اندر کئی احتمال ہیں اس لیے عید کی نماز فرض قرار نہیں دی گئی۔ رہا وجوب سو وہ جناب رسول اللہ کے مداومت فرمانے سے سمجھا گیا۔ وا اللہ اعلم۔ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ( اور تاکہ تم احسان مانو) یعنی تاکہ تم روزہ کے واجب ہونے پر شکر کرو اس لیے کہ وہ درجات کے ملنے کا وسیلہ و ذریعہ ہے اور مریض اور مسافر کے لیے افطار کے مباح ہونے پر شکر کرو کیونکہ اس میں تمہارے لیے تخفیف اور رخصت ہے اور لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ کا لِتُکَبِّرُوْا اللہ پر عطف ہے۔ فصل : ماہ رمضان اور اس کے روزوں کی فضیلت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں کوئی دروازہ اس کا کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اس کا کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا اور منادی ندا دیتا ہے کہ اے بھلائی کے طالب اور اے بڑائی کے طالب بس کر آج جہنم سے اللہ کی طرف سے بہت سے نجات پانے والے ہیں یہ ندا ہر رات ہوتی ہے اس حدیث کو ترمذی ‘ ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کو رمضان میں یاد کرنے والے کے لیے مغفرت ہوتی ہے اور دعا کرنے والا محروم نہیں رہتا اور مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان میں اخلاص سے اور ثواب کی امید کرکے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخشے جائیں گے اور جو لیلۃ القدر میں اخلاص اور ثواب کی امید سے قیام کرے اس کے بھی پچھلے گناہ بخشے جائیں گے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے 30 شعبان کو خطبہ پڑھا اور اس میں فرمایا اے لوگو ! ایک بڑا عظیم الشان مہینہ آیا ہے اور یہ مہینہ بڑی برکت والا ہے اس مہینہ میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا ہے اور اس کی رات میں قیام کرنے کو نفل فرمایا ہے جو شخص اس مہینے میں کوئی خیر کا کام کرے تو اس کا ایسا ثواب ہے جیسے اور مہینے میں فرض کا اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے اس کا ایسا ثواب ہے جیسے کسی نے ستر فرض ادا کیے یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ غمخواری کا ہے اور اس مہینے میں رزق بڑھتا ہے جو اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے گناہوں کی مغفرت اور ایک گردن آزاد کرنے کا ثواب ہوگا اور اس کو مثل روزہ دار کے ثواب ہوگا اور اس کا ثواب بھی کم نہ ہوگا صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ ہر ایک کو تو اتنی مقدرت نہیں کہ روزہ افطار کرائے حضور ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ایک گھونٹ دودھ کا یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی کا پلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اس قدر ثوابدیں گے اور جو روزہ دار کو شکم سیر کھانا کھلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض کوثر سے ایسا گھونٹ پلائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس مہینے کے شروع میں تو رحمت ہے اور درمیان میں مغفرت ہے اور آخر میں آگ سے خلاصی۔ اس لیے تم کو اس ماہ میں چار خصلتوں کی پابندی کرنی چاہئے۔ دو خصلتیں تو ایسی ہیں کہ ان سے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو اور دو ان میں ایسی ہیں کہ ان سے تم کو لاپروائی نہیں ہوسکتی پروردگار کے راضی کرنے کی دو خصلتیں یہ ہیں کہ اوّل تو گواہی اس بات کی دو کہ کوئی معبود سوائے اللہ کے نہیں اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور دو خصلتیں جن سے تم کو لاپروائی نہیں ہوسکتی ان میں سے اوّل تو یہ ہے کہ جنت کا سوال کرتے رہو اور دوسرے یہ کہ آگ سے پناہ مانگتے رہو اس حدیث کو علامہ بغوی (رح) نے روایت کیا ہے اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا ابن آدم کو ہر نیکی کا ثواب دس نیکیوں سے لے کر سات سو نیکیوں تک ملتا ہے اور یہ سب ثواب روزہ کے سوا دوسرے اعمال خیر کا ہے روزہ کی نسبت تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا ثواب دوں گا وہ اپنا کھانا اور پینا اور شہوت میرے ہی لیے چھوڑتا ہے اور فرمایا روزہ دار کے لیے دو طرح کی خوشی ہے ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی پروردگار سے ملنے کے وقت۔ روزہ دار کو چاہئے کہ جس دن روزہ رکھے تو بےہودہ باتیں اور شور و شغب نہ کرے اور اگر کوئی اس کو برا کہے یا لڑے تو کہہ دے کہ بھائی میں روزہ دار ہوں اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ روزہ اور قرآن یہ دونوں قیامت کے دن بندہ کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے پروردگار میں نے اس کا کھانا اور خواہشات دن کو روک دی تھیں اب اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن شریف کہے گا کہ اے اللہ میں نے رات کو اس کی نیند کھوئی تھی اس لیے میری سفارش قبول فرما اللہ تعالیٰ دونوں کی شفاعت قبول فرمالیں گے اس حدیث کو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ رمضان کی آخری شب میں میری امت کی مغفرت کی جاتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ کیا وہ رات لیلۃ القدر ہے فرمایا نہیں لیلۃ القدر تو نہیں لیکن قاعدہ ہے کہ جب کام کرنے والا اپنے کام سے فارغ ہوتا ہے تو اس کو مزدوری پوری دی جاتی ہے (ایسے ہی اس رات میں بندے مالک کے فرض سے ادا ہوتے ہیں اس لیے ان کو مغفرت ملتی ہے) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ وا اللہ اعلم۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور ابو الشیخ وغیرہم نے بطریق جریر بن عبد الحمید السجستانی سے اور انہوں نے صلت بن حکیم بن معاویہ بن جبیر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی رسول ﷺ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ ہمارا پروردگار کہاں ہے اگر قریب ہے تو اس سے چپکے چپکے دعا کریں اور دور ہے تو اس کو پکاریں حضور ﷺ نے سن کر سکوت فرمایا اس کے بعدہی آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top