Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِب : فرض کیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْقِصَاصُ : قصاص فِي الْقَتْلٰي : مقتولوں میں اَلْحُرُّ : آزاد بِالْحُرِّ : آزاد کے بدلے وَالْعَبْدُ : اور غلام بِالْعَبْدِ : غلام کے بدلے وَالْاُنْثٰى : اور عورت بِالْاُنْثٰى : عورت کے بدلے فَمَنْ : پس جسے عُفِيَ : معاف کیا جائے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : سے اَخِيْهِ : اس کا بھائی شَيْءٌ : کچھ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا بِالْمَعْرُوْفِ : مطابق دستور وَاَدَآءٌ : اور ادا کرنا اِلَيْهِ : اسے بِاِحْسَانٍ : اچھا طریقہ ذٰلِكَ : یہ تَخْفِيْفٌ : آسانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنِ : پس جو اعْتَدٰى : زیادتی کی بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
مومنو! تم کو مقتولوں کے بارےمیں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت اور قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول) کو پسندیدہ طریق سے (قرار داد کی) پیروی (یعنی مطالبہٴ خون بہا) کرنا اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ( اے ایمان والو تم پر لازم کیا جاتا ہے برابری کرنا مقتولوں میں) شعبی اور کلبی اور قتادہ نے کہا ہے کہ زمانہ اسلام سے کچھ ہی پہلے عرب کے دو قبیلوں میں خوب قتل و قتال ہوا اور آپس میں ایک دوسرے کے ذمہ بہت سے خون ہوئے جب اسلام کا عہد برکت آیا تو آیت : یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخنازل ہوئی۔ مقاتل بن حبان نے کہا ہے کہ یہ قتل و قتال قریظہ اور نضیر میں ہوا تھا اور سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اوس اور خزرج میں ہوا تھا اور سعید اور مقاتل یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ان میں ایک قبیلہ دوسرے سے تعداد اور غلبہ میں زیادہ تھا اسی واسطے دوسرے قبیلہ کی عورتوں سے بغیر مہر نکاح کرلیتے تھے اور طرح طرح کی زیادتیاں کرتے تھے جب ان پر ایسی زیادتی ہوئی تو یہ قسم کھا بیٹھے کہ ہم اپنے غلام کے عوض آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کریں گے اور ایک زخم کے عوض دو زخم لائیں گے اور اس واقعہ کو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مساوات کا حکم فرمایا اور اس پر وہ سب راضی ہوگئے اور تسلیم کرلیا۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے اس طرح روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں ان کا راضی ہونا اور تسلیم کرنا اور یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ سے ان کو خطاب فرمانا اس پر صاف دلیل ہے کہ مخاطب اس آیت میں اوس اور خزرج ہیں جو کہ اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ بنی قریظہ اور بنو نضیر نہیں کیونکہ یہ اللہ کے دشمن اور کفار تھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ عمداً قتل کرنے میں فقط قصاص واجب ہے۔ خون بہا بغیر قاتل کی رضا مندی کے واجب نہیں۔ امام صاحب کے اس مسلک کی اللہ تعالیٰ کے قول : کتب علیکم القصاصُ ( لکھا گیا تم پر قصاص) سے تائید ہوتی ہے اور نیز حدیث : فی الْعَمَدِ الْقَوْدِ ( قتل عمد میں قصاص ہے) بھی امام صاحب کے مذہب پر صاف دال ہے اس حدیث کو امام شافعی اور ابو داوٗد اور نسائی اور ابن ماجہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے محدثین نے اس حدیث کے مرسل اور متصل ہونے میں اختلاف کیا ہے۔ دارقطنی کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ مرسل ہے اور مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے اور دار قطنی نے اس حدیث کو مرفوعاً عبد اللہ بن ابی بکر بن حمد بن حزم سے بواسطہ ان کے باپ اور جد کے بایں الفاظ : العمد قود والخطاء دیۃ ( قتل عمد میں قصاص ہے اور خطاء میں دیت ہے) روایت کیا ہے لیکن ان کی سند میں کسی قدر ضعف ہے۔ امام شافعی اور مالک اور امام احمد (رح) کے اس مسئلہ میں دو دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ قصاص واجب ہے لیکن مقتول کے وارثوں کو یہ پہنچتا ہے کہ بغیر قاتل کی رضا کے قصاص کے عوض میں دیت لے لیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ قصاص اور دیت میں سے ایک شے واجب ہے یا قصاص ہی اختیار کرلو یا دیت لے لو اور ان دونوں قولوں میں مآل کار کچھ فرق نہیں ایک صورت میں آکر البتہ فرق ہوگا وہ یہ ہے کہ جب مقتول کے وارث یہ کہیں کہ ہم نے قصاص معاف کردیا اور دیت کا کچھ ذکر نہ کریں تو پہلے قول کے موافق توقصاص ساقط ہوجائے گا اور دیت ساقط نہ ہوگی اور دوسرے قول کے مطابق قصاص کے معاف کردینے سے دیت ثابت و مقرر ہوجائے گی۔ ائمہ ثلاثہ مذکورین (رح) نے بغیر رضا مجرم کے مال لینے پر احادیث ذیل سے استدلال کیا ہے۔ ابو شریح کعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح ہونے کے دن فرمایا کہ اس کے ( کسی مقتول کے بارہ میں) وارثوں کو اختیار ہے خواہ قتل کریں یا دیت لیں۔ اس حدیث کو ترمذی اور امام شافعی (رح) نے روایت کیا ہے اور علامہ ابن جوزی اور دارمی نے ابو شریح خزاعی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی عزیز قتل کیا جائے یا اس کو کوئی زخمی کردے تو اس کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے چوتھی بات کا اگر ارادہ کرے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو۔ یا تو قصاص لے۔ یا معاف کردے یا دیت لے سو اگر ان تینوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلیا اور پھر حد سے تجاوز کیا تو اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ آگ ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کا کوئی مقتول ہو اس کو اختیار ہے یا فدیہ لے لے یا قتل کردے۔ اور عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے اب وجد (باپ و دادا ‘ 12) کے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کو جان کر قتل کردے تو اس کو مقتول کے وارثوں کو دے دیا جائے یا تو وہ اس کو قتل کردیں اور یا دیت لے لیں اور دیت تیس حقے اور تیس جذعے اور چالیس خلفے ( جن کے پیٹ میں بچے ہوں) ہے اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے حنفیہ ان احادیث کا جواب دیتے ہیں کہ معنی ان احادیث کے یہ نہیں ہیں جو تم سمجھے ہو بلکہ مقصود رسول کریم ﷺ کا یہ ہے کہ مقتول کے وارثوں کو اختیار ہے کہ خواہ قصاص لیں یا صلح کریں اور صلح بغیر قاتل کی رضا کے نہیں ہوسکتی اور ظاہر یہ ہے کہ قاتل اپنے خون کے بچاؤ کے لیے راضی ہوجائے گا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے قاتل کی رضاکو ذکر نہیں فرمایا اور ظاہر پر چھوڑ دیا۔ واللہ اعلم۔ اَلْحُــرُّ بالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بالْاُنْـثٰى ۭ ( آزاد کے بدلے قتل کیا جائے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے عوض عورت) اس آیت سے یہ نہیں نکلتا کہ آزاد غلام کے عوض اور غلام آزاد کے عوض اور مرد عورت کے بدلے قتل نہ کئے جائیں ان احکام سے اس آیت میں کچھ بحث نہیں آیت اس بارے میں محض ساکت ہے اور مفہوم مخالف کا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اعتبار نہیں ہے اور جو لوگ مفہوم مخالف کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی اس آیت سے یہ احکام مستخرج نہیں ہوتے کیونکہ مفہوم ان کے نزدیک اس وقت معتبر ہوتا ہے جب تخصیص ذکر کا سوائے اختصاص حکم کے کوئی فائدہ نہ ہو اور اگر کوئی فائدہ ہو تو اس وقت مفہوم کا اعتبار نہیں کرتے اور اس آیت میں تخصیص ذکر کا یہ فائدہ ہے کہ تخصیص سے یہ معلوم کرانا ہے کہ ایک حیثیت کو دوسری پر کچھ زیادتی و شرف نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس آیت سے یہ مفہوم ہوگا کہ آزاد جب کسی آزاد کو قتل کرے تو اس کے عوض اس آزاد ہی کو قتل کیا جائے اور مقتول کے شرف یا مرتبہ کی وجہ سے اس کے ساتھ اوروں کو قتل نہ کیا جائے اسی طرح جب کوئی غلام کسی غلام کو مار ڈالے تو اس کے قصاص میں قاتل ہی کو مارا جائے کسی آزاد کو اس مقتول کے کسی شرف و کمال کی وجہ سے نہ مارا جائے اور ایسے ہی کوئی عورت جب کسی عورت کو قتل کر ڈالے تو اس کے بدلے اس عورت کو ہی مارا جائے اس عورت کے کسی کمال و شرف کی وجہ سے کسی مرد کو اس قاتلہ کے ساتھ مارنے میں شریک نہ کیا جائے اب رہے وہ احکام جو آیت سے نہیں نکلتے ہیں ( جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے) تو مام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک جان دوسری جان کی عوض قتل کردی جائے گی خواہ کوئی ہو آزاد ہو یا غلام۔ مرد ہو یا عورت۔ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ اللہ تعالیٰ عام طور سے بلا تفصیل فرماتا ہے : وَ کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ( یعنی اور لکھ دیا ہم نے ان پر ( بنی اسرائیل پر) تورات میں کہ بیشک جان کے بدلے جان لی جائے گی) اور پہلی امتوں پر جو احکام اللہ تعالیٰ نے اتارے ہیں ان کے ناقل اگر خود یہود اور نصارٰی ہوں تب تو کچھ اعتبار نہیں اور اگر خود اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ بلا انکار نقل فرمائیں تو ان احکام کا ہم کو بھی اتباع ضروری ہے کیونکہ جب حاکم ایک اور طریقہ ایک ہے پھر اتباع و اطاعت نہ کرنا چہ معنی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَبِھُدَاھُمْ اقْتَدِہٗیعنی آپ ان ہی کے طریقہ کی پیروی کریں اور فرماتا ہے : شَرَعَ لَکُمْ مِمَّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلََیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرَاھِیْمَ وَ مُوسٰی وَ عِیْسٰی ( یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی راہ مقرر فرائی جس کا نوح ( علیہ السلام) کو حکم فرمایا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی اور وہ جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم کیا تھا) اور احکام میں بغیر منسوخ ہوئے اختلاف نہیں ہوتا خواہ وہ منسوخ ہونا ایک کتاب میں ہو یا چند کتابوں میں ہو اور جب تک نسخ ظاہر نہیں ہوگا حکم باقی رہے گا اس حکم کے باقی رہنے پر ذیل کی دو حدیثیں صاف دلالت کرتی ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان آدمی جو اللہ کے ایک ہونے اور میرے رسول ہونے کا اقرار اور گواہی دیتا ہو اس کا خون گرانا بغیر تین باتوں کے جائز اور حلال نہیں یا تو اسے کسی کو قتل کردیا ہو اس لیے اس کو قصاص میں قتل کیا جائے یا باوجود نکاح ہونے کے زنا کرے یا اپنے دین اور مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑدے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ابو امامہ سے مروی ہے کہ بروز محاصرہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانک کر محاصرین سے کہا کہ تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا خون بغیر تین باتیں ہوئے حلال نہیں یا تو احصان کے بعد زنا کرے یا اسلام کے بعد کفر کرے یا ناحق کسی جان کو مار ڈالے۔ اس حدیث کو شافعی اور احمد (رح) اور ترمذی اور ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور اس بارے میں مسلم اور ابو داؤد ی عہر نے عائشہ ؓ سے بھی روایت کیا ہے لیکن ابوحنیفہ (رح) یہ ضرور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو یا اپنے مدبر کو یا اپنے مکاتب کو یا ایسے غلام کو جس کے بعض حصہ کا یہ مالک ہے یا اپنے بیٹے کے غلام کو مار ڈالے تو اس کے عوض قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ اگر قصاص میں یہ قتل کیا جائے تو لازم آتا ہے کہ خود اپنے سے قصاص لے اور آدمی دوسرے سے پانی کا مستحق ہے نہ کہ اپنی ذات سے اسی طرح بیٹا بھی دیت باپ سے نہیں لے سکتا اور داوٗد ظاہری کہتے ہیں کہ ان سب صورتوں میں قصاص لیا جائے گا اور دلیل میں ترمذی اور ابو داؤد اور ابن ماجہ اور دارمی کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں حسن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو قتل کردے اس کو ہم قتل کر ڈالیں گے اور جو اپنے غلام کی ناک کاٹے ہم بھی اس کی ناک کاٹیں گے۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث سیاست پر محمول ہے نیز یہ حدیث مرسل بھی ہے کیونکہ حسن کو سمرہ سے سماعت نہیں ہوئی اور نیز دار قطنی نے عمرو بن شعیب سے بواسطہ ان کے اب وجد کے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو جان کر مار ڈالا تھا تو نبی ﷺ نے اس کے سو کوڑے مارے اور ایک سال کے لیے اس کو جلا وطن کردیا اور غنیمت سے اس کو حصہ نہیں دیا مگر قصاص نہیں لیا اور اس کو حکم فرمایا کہ ایک غلام آزاد کردے لیکن اس کی سند میں اسماعیل بن عباش راوی ضعیف ہے ‘ واللہ اعلم۔ اور سوائے امام ابوحنیفہ (رح) (رح) کے اور سب اس پر متفق ہیں کہ غلام آزاد کے بدلے اور عورت مرد کے بدلے اور کافر مسلمان کے بدلے قتل کئے جائیں اور اس کا عکس جائز نہیں۔ کیونکہ پہلی صورتوں میں تو ادنیٰ اعلیٰ کے عوض قتل کیا جاتا ہے اس میں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اعلیٰ کا عوض ادنیٰ ہوسکتا ہے اور دوسری صورتوں میں اعلیٰ ادنیٰ کے عوض میں جاتا ہے یہ نا مناسب ہے لیکن اس پر متفق ہیں کہ مرد عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا کیونکہ عمرو بن ہشام سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اہل یمن کو ایک خط میں لکھا تھا کہ مرد عورت کے عوض قتل کیا جائے یہ ایک حدیث مشہور کا ٹکڑا ہے جس کو امام مالک اور شافعی (رح) نے روایت کیا ہے محدثین نے اس حدیث کی صحت میں اختلاف کیا ہے ابن حزم نے کہا ہے کہ عمرو بن حزم کا صحیفہ جس میں یہ حدیث ہے منقطع ہے قابل احتجاج نہیں اور نیز سلیمان بن داؤد راوی کے ترک پر سب کا اتفاق ہے اور ابو داوٗدنے کہا ہے کہ سلیمان بن داوٗد کسی نے وہم سے کہ دیا ہے۔ واقع میں یہ سلیمان بن ارقم ہیں اور حاکم اور ابن حبان اور بیہقی نے اس حدیث کی تصحیح بھی کی ہے اور امام احمد سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں مجھے امید ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو اور ابو ذرعہ اور ابو حاتم اور حفاظ کی ایک جماعت نے سلیمان بن داؤد کو اچھے الفاظ سے یاد کیا ہے اور اس حدیث کو ائمہ کی ایک بڑی جماعت نے اس کی شہرت کے اعتبار سے صحیح کہا ہے اگرچہ سند کی حیثیت سے صحیح نہیں کہا ہے چناچہ امام شافعی اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ علماء نے اس حدیث کو جب تک ان کو یہ ثابت نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا نامہ ہے قبول نہیں کیا۔ ابن عبددالبر نے کہا ہے کہ یہ خط اہل سیر کے نزدیک بہت مشہور ہے اور اس کا مضمون اہل علم کے نزدیک بخوبی روشن ہے رہی یہ بات کہ آزاد کو دوسرے کے غلام کے بدلے قتل کیا جائے یا نہیں امام مالک اور شافعی اور احمد تو یہ فرماتے ہیں کہ نہ قتل کیا جائے اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ قتل کیا جائے گا۔ ائمہ ثلثہ (رح) کی دلیل ابن عباس ؓ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے اس حدیث کو دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے حنفیہ کی طرف سے اس کا یہ جواب ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس حدیث کے اندر جویبر اور عثمان بزی دو راوی ضعیف اور متروک ہیں۔ ابن جوزی اور حافظ ابن حجر نے اسی طرح کہا ہے اور اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت علی ؓ سے مروی ہے اس میں جابر جعفی ایک راوی ہے اس کو لوگوں نے کذاب کے لفظ سے یاد کیا ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ مسلمانوں کو کافر کے عوض قتل کریں یا نہیں۔ امام شافعی اور احمد تو فرماتے ہیں کہ قتل نہ کریں گے کیونکہ ابو جحیفہ حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس سوائے قرآن کے اور بھی کچھ ہے ؟ فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو چیرا اور جان کو پیدا کیا ہمارے پاس سوائے قرآن پاک کے کچھ نہیں ہے مگر ہاں ایک سمجھ ہے جو مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب سمجھنے کے لیے عطا فرمائی ہے اور ایک وہ شۂ ہے جو اس صحیفہ میں ہے میں نے پوچھا کہ اس صحیفہ میں کیا ہے فرمایا اس میں دیت اور اسیر کے چھوڑنے کے احکام ہیں اور اس میں یہ بھی ہے کہ مسلمان کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ امام احمد (رح) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس میں اتنا اور زیادہ ہے کہ کوئی ذمی اپنے ذمہ کی حالت میں قتل نہ کیا جائے اور نیز امامین مذکورین (رح) عمرو بن شعیب کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ بواسطہ اپنے اب وجد کے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ مسلمان کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے اس حدیث کو امام احمد اور اصحاب سنن نے سوائے نسائی کے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے ابن عباس ؓ اور ابن حبان نے ابن عمر ؓ سے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور امام شافعی نے عطا اور طاؤس اور حسن اور مجاہد ؓ سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ کوئی مؤمن کافر کے عوض قتل نہ کایا جائے امام بیہقی نے بھی اس حدیث کو عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا ہے اور عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا کسی حالت میں سوائے تین حالتوں کے قتل کرنا جائز نہیں۔ یا تو محصن ہو کر زنا کرے تو اس صورت میں سنگسار کردیا جائے گا۔ یا کسی مسلمان کو جان کر مار ڈالے یا اسلام سے نکل کر اللہ و رسول سے مقابلہ کرے اس صورت میں قتل کردیا جائے یا سولی دیا جائے یا جلا وطن کردیا جائے۔ اس حدیث کو ابو داوٗد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور عبد الرزاق نے معمر سے معمر نے زہری سے زہری نے سالم سے سالم نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو مار ڈالا یہ قصہ حضرت عثمان ؓ کے روبرو پیش ہوا تو حضرت عثمان نے اس کو قتل نہیں کیا مگر دیت میں بہت شدت فرمائی۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت صحیح ہے اور اس بارے میں صحابہ سے سوا اس کے اور کوئی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی لیکن ہاں حضرت عمر ؓ سے اس قصہ میں اتنا منقول ہے کہ انہوں نے لکھا کہ ایسے موقع میں قصاص لیا جائے پھر اس کے بعد عمر ؓ نے تحریر فرمایا کہ ایسے شخص کو قتل مت کرو دیت لو۔ ان سب احادیث کا جواب یہ ہے کہ ان احادیث میں کافر سے مراد حربی ہے ذمی نہیں ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ کا قول ولا ذو عھد فی عھدہ ( یعنی نہ قتل کیا جائے ذمہ والا ذمہ کی حالت میں) اس پر صاف دال ہے کیونکہ مطلب اس کا یہ ہے کہ ذمی اپنے عہد کی حالت میں کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے اور یہ ظاہر ہے کہ ذمی ذمی کے بدلے قتل کیا جاتا ہے۔ تو لا محالہ کافر سے مراد حربی ہوگا۔ رہا حضرت عثمان اور حضرت عمر کا فتویٰ سو وہ ان کا اجتہاد اور رائے ہے اسی واسطے حضرت عمر کا جواب اس بارے میں مختلف ہوا باقی حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سو اس میں اسلام کی قید اتفاقاً واقع ہوئی ہے اور مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل کرنے پر صاحب ہدایہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ مسلمان ذمی کے بدلے قتل کیا جائے۔ میں کہتا ہوں کہ دار قطنی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کو ذمی کے بدلے خود قتل کیا ہے اور فرمایا کہ میں ذمہ کے پورا کرنے والوں میں زیادہ کریم ہوں لیکن دار قطنی نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث کو سوائے ابراہیم بن یحییٰ کے کسی نے سنداً روایت نہیں کیا اور ابراہیم بن یحییٰ متروک الحدیث ہے ابن جوزی نے کہا ہے کہ ابراہیم بن یحییٰ کذاب ہے اور ٹھیک یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے ابن سلیمان پر جا کر ختم ہوجاتی ہے اور ابن سلیمان مرسل تو علیحدہ اگر متصل سند بھی بیان کرے تب بھی ضعیف ہے قابل سند نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اولیٰ یہ کہ آیت : اِنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ الخ اور حضرت ابن مسعود اور عثمان اور عائشہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا جائے باقی سب چھوڑ دیا جائے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ باپ بیٹے کے عوض مارا جائے گا یا نہیں۔ امام مالک (رح) تو یہ فرماتے ہیں کہ جب باپ نے اس کو لٹا کر ذبح کیا ہو تو قتل کردیا جائے اور داؤد ظاہری امام ابوحنیفہ (رح) اور شافعی اور احمد فرماتے ہیں کہ کسی حالت میں قتل نہ کیا جائے گا ہماری دلیل حضرت عمر بن الخطاب ؓ کی حدیث ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ باپ سے بیٹے کے عوض قصاص نہ لیا جائے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حجاج بن ارطات راوی ہے اور امام احمد کے نزدیک یہ حدیث اور طریق سے ہے اور دار قطنی کے نزدیک ایک اور طریق سے مروی ہے کہ وہ طریق پہلے دو طریق سے زیادہ صحیح ہے اور بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو سراقہ ؓ سے بھی روایت کیا ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے اور نیز اس میں عمرو بن شعیب پر آکر اختلاف اور اضطراب ہے بعض نے تو عمرو سے روایت کیا ہے اور بعض نے سراقہ سے اور امام احمد کے نزدیک عمرو بن شعیب سے بلا واسطہ مروی ہے لیکن اس میں اب لہیعہ راوی ضعیف ہے اور نیز اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے مگر اس سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے لیکن بیہقی نے کہا ہے کہ حسن بن عبد اللہ عنبری نے عمرو بن دینار سے اس کی متابعت کی ہے۔ شیخ عبد الحق کہتے ہیں کہ یہ سب احادیث معلول ہیں کوئی ان میں درجہ صحت کو پہنچی ہوئی نہیں اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے اہل علم سے یہ مضمون محفوظ کیا ہے کہ باپ بیٹے کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور یہی میرا مذہب ہے ‘ واللہ اعلم۔ (جب ایک جماعت مل کر ایک آدمی کو قتل کر ڈالے ) مسئلہ : ایسی صورت میں کہ جماعت میں سے ہر شخص نے ایسا زخمی کیا ہو کہ ہلاکت کے قریب کردینے والا ہو تو ان سے قصاص لیا جائے گا بخلاف قطاع طریق کے کیونکہ قطاع الطریق پر قتل بوجہ اعانت کے آتا ہے اور یہاں ہر ایک سے زخم کا ہونا شرط ہے۔ مسند اور چلپی میں ہے کہ ایسی حالت میں کہ جماعت قاتلین میں سے ہر ایک سے زخمی کرنا ثابت ہو سب سے قصاص لیا جائے گا اور اگر بعض سے صادر ہو اور بعض سے نہ ہو تو اس شخص سے قصاص لیا جائے گا جس نے زخم لگایا اور جس نے زخم نہیں لگایا۔۔ اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا خواہ اس نے اعانت کی ہو یا نہ کی ہو بخلاف قطاع طریق کے کہ وہاں سب پر قتل واجب ہوگا سب کو قتل کیا جائے گا اور داوٗد کہتے ہیں کہ ایک روایت امام احمد سے بھی یہی ہے کہ قتل نہ کیے جائیں بلکہ دیت لی جاوے۔ سعید بن المسیب ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص صنعا میں مارا گیا حضرت عمر ؓ نے اس کے عوض سات آدمیوں کو مارا اور یہ فرمایا کہ اگر اس کے قتل میں تمام اہل صنعاء شریک ہوتے تو سب کو قتل کردیتا۔ اس حدیث کو امام مالک نے موطا میں اور امام شافعی نے امام مالک سے اور بخاری نے ایک اور سند سے روایت کیا ہے اور اگر ایک شخص جماعت کو قتل کرے تو اس میں بھی ائمہ کا اختلاف ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) تو یہ فرماتے ہیں کہ قصاص کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر اس نے جماعت کو یکے بعد دیگرے قتل کیا ہے تو فقط اوّل مقتول کے عوض قتل کیا جائے گا اور باقی مقتولوں کے لیے دیت ہوگی اور اگر دفعتاً ایک حالت میں سب کو مارا ہے تو ان مقتولین کے وارثوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے گا جس کا قرعہ نکلے گا اس کے عوض تو قتل کردیا جائے گا اور باقی کے لیے لی جائے گی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ وارث سب آئیں اور قصاص طلب کریں تو سب کے عوض قتل کردیا جائے گا اور دیت نہیں ہے اور اگر بعض نے تو قصاص طلب کیا اور بعض دیت کے طالب ہوئے تو جو طالب قصاص ہیں ان کے واسطے قتل کیا جائے گا اور جو دیت کے طالب ہیں ان کیلیے دیت واجب ہوگی اور اگر سب کے سب دیت ہی کے طالب ہوں تو ایک دیت پوری ہر ایک کو ملے گی اس پر سب متفق ہیں کہ قتل خطا میں قصاص نہیں قصاص عمد میں ہے اور عمد کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ قتل عمد یہ ہے کہ کسی ہتھیار یا دھار دار لکڑی یا پتھر یا آگ سے جان کر مارا جائے اور شعبی اور نخعی اور حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ قتل عمد صرف لوہے کے ہتھیار سے ہوتا ہے اور عمد کے سوا اور کسی قتل میں قصاص نہیں اور اگر ہتھیار یا کسی دھار دار شأ کے سوا اور کسی چیز سے جان کر مارا تو یہ قتل شبہ عمد کہلاتا ہے اور اس میں قصاص نہیں دیت واجب ہے اور امام ابو یوسف و محمد و شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی بڑے پتھر یا بڑی بھاری لکڑی سے مارا اور یہ گمان غالب ہے کہ اس کے لگنے سے آدمی مرجاتا ہے تو یہ بھی عمد ہے اور اس میں قصاص ہے اور اگر پانی میں عرق کردیا یا گلا گھونٹ دیا یا چند روز تک کھانا پانی روک دیا اور مرگیا تو یہ سب قتل عمد میں شمار ہوگا اور قصاص واجب ہوگا اور امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر ایسے عصا یا کوڑے یا چھوٹے پتھر سے جان کر مار ڈالا کہ عادۃً اس کے لگنے سے آدمی مرتا نہیں تو یہ بھی عمد ہے اور اس میں بھی قصاص ہے اور جمہور کہتے ہیں کہ یہ خطا العمد ہے اور اس میں قصاص نہیں ہے بلکہ دیت واجب ہے لیکن شافعی اتنا زیادہ فرماتے ہیں کہ اگر کئی مرتبہ مارا حتیٰ کہ مرگیا تو قصاص واجب ہے غرض سوائے ابوحنیفہ (رح) کے اس پر سب متفق ہیں کہ اگر کسی بھاری چیز سے اگرچہ دھار دار نہ ہو جان کر مارا تو قصاص واجب ہے اور دلیل صحیحین کی حدیث ہے جو حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ایک عورت کا سر دو پتھروں کے بیچ میں کچل کر مار ڈالا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سرکو بھی دو پتھروں کے بیچ میں رکھ کر کچل دیا اور امام احمد نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور ابن عباس ؓ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے جنین کے بارے میں فیصلہ فرمایا میں حاضر تھا اور قصہ یوں ہوا تھا کہ ابن مالک آئے اور آکر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے یہاں دو عورتیں تھیں وہ دونوں آپس میں لڑی اور ایک نے دوسری پر خیمہ کا ستون کھینچ مارا کہ وہ مرگئی اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ بھی راہی ملک عدم ہوا حضور ﷺ نے اس بچہ کے بدلے تو ایک غلام دیدینے کا حکم فرمایا اور اس عورت مقتولہ کے عوض قاتل کے قتل کرنے کو ارشاد فرمایا اور کوڑے اور عصا سے مارے جانے میں قصاص نہ ہونے کی دلیل جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خطا یعنی شبہ عمد کا مقتول کوڑے اور عصا کا مقتول ہے اس میں سو اونٹ ہیں چالیس ان میں ایسے ہوں کہ ان کے پیٹ میں اولاد ہو اس حدیث کو ابو داود اور نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ دو عورتیں قبیلہ ہذیل کی آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کے ایک پتھر مارا اس کے صدمہ سے وہ مرگئی اور جو اس کے پیٹ میں بچہ تھا وہ بھی مرگیا رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جنین کی دیت تو ایک غلام یا باندی دے دینا چاہئے اور عورت کی دیت اس کے عاقلہ پر مقرر فرمائی اور مغیرہ بن شعبہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر کسی کے اندھا ا دھند اور گڑ بڑ میں کوئی پتھرلگا یا کوئی کوڑا یا لاٹھی آ لگی اور اس سے وہ مرگیا تو یہ قتل خطا ہے اور اس کی دیت بھی قتل خطا کی دیت ہوگی اور جو جان کر مارا گیا تو قصاص واجب ہے اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) وزنی چیز بےدھار سے مارے جانے میں قصاص کے قائل نہیں ہیں ان کی دلیل علی ؓ کی حدیث ہے کہ حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سوائے لوہے کے کسی اور چیز سے مارے جانے میں قصاص نہیں ہے اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں معلی بن جلال راوی ہے یحییٰ بن معین نے اس کی نسبت کہا ہے کہ وہ حدیث کو بنا لیا کرتا تھا اور جمہور نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اوّل تو یہ حدیث پایہ ثبوت اور صحت کو نہیں پہنچی اور اگر مان بھی لی جائے تو حدیث لا قود الا بالسَّیف (یعنی قصاص سوائے تلوار کے اور کسی چیز سے نہ لیا جائے گا) پر محمول ہے ( یعنی جو اس کے معنے ہیں وہ ہی اس حدیث کے لیے جائیں گے۔ ) اور یہ حدیث یعنی لا قود الا بالسیف ابوہریرہ اور ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اور اس کی سند میں ابو معاذ سلیمان بن ارقم متروک ہے اور ابو بکرہ اور نعمان بن بشیر سے بھی یہ حدیث منقول ہے اور اس کے راوی مبارک بن فضالہ کا امام احمد کچھ اعتبار نہ کرتے تھے اور نعمان بن بشیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سوائے تلوار کے ہر شۂ سے مارنا خطا ہے اور ہر خطا میں دیت ہے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ہر شے سے سوائے لوہے کے مارنا خطا ہے اور اس کی سند میں جابر جعفی کذاب ہے اس میں اختلاف ہے کہ آیا جس شے سے قاتل نے قتل کیا ہے اس سی قصاص لیا جائے یا تلوار سے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد تو یہ فرماتے ہیں کہ قصاص تلوار ہی سے لینا چاہئے اور اس مضمون کی حدیث اور اس کی سند اور جو کچھ اس میں کلام ہے وہ پہلے گذر چکی ہے اور امام شافعی ومالک فرماتے ہیں اور نیز امام احمد کا دوسرا قول ہے کہ جس شے سے قاتل نے مارا ہے اسی سے اسکو مارا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ قصاص فرمایا ہے اور قصاص کے معنیٰ برابری کرنا ہے اور نیز صحیحین کی حدیث انس بن مالک سے اول گذر چکی ہے کہ ایک یہودی نے ایک عورت کا سر پتھروں سے کچل دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا سر پتھروں ہی سے کچلا۔ اس سے خود معلوم ہوتا ہے کہ قصاص یہی ہے کہ جس چیز سے قاتل نے مارا ہے اسی سے اس کو مارا جائے اور نیز مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کسی کو غرق کرے اس کو ہم بھی غرق کردیں گے اور جو کسی کو آگ سے جلا دے اس کو ہم بھی جلا دیں گے۔ اس حدیث کو بیہقی نے معرفہ بن عمرو بن نوفل بن یزید بن براء سے عمرو نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ ( پھر جس کو معاف ہوجائے اس کے بھائی کی جانب سے کچھ) صاحب قاموس نے کہا ہے کہ عفو کے معنے درگذر کرنا اور مستحق عقوبت کی عقوبت چھوڑنا ہیں اور کہا ہے کہ عرب عفی عنہ ذنبہ اور عفی لہ ذنبہ (اس کا گناہ معاف کیا گیا) بولتے ہیں صاحب قاموس کی اس عبارت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ عفو ذنب ( گناہ) کی طرف تو بلا واسطہ متعدی ہوتا ہے اور مجرم کی جانب بواسطہ عن یا لام کے متعدی ہوتا ہے اس صورت میں مَنْ ۔ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ میں خواہ شرطیہ ہو یا موصولہ ہو مبتدا ہوگا اور مراد مَنْ سے قاتل ہوگا اور مِنْ مِنْ اَخِیْہِ میں یا تو ابتدائیہ اور ظرف لغو ہوگا اور مراد اخ سے مقتول کا ولی ہوگا اور یا تبعیضیہ ہوگا اور اخیہ سے پہلے دم مضاف محذوف ہوگا اور تقدیر عبارت کی یہ ہوجائے گی۔ فمن عفی لہ من دم اخیہ شئ ( پس اگر قاتل کے لیے اس کے بھائی کے خون سے کچھ معاف کیا جائے) اور مراد اخ سے اس صورت میں مقتول ہوگا اور ظرف اس تقدیر پر مستقر ہوگا اور ترکیب میں حال مقدم بنے گا اور شؤ عفو کا مفعول بہ قرار دیا جائے گا کہ جس کی طرف فعل مسند کردیا گیا اور مراد شے سے جنایت ( قصور و خطا ہوگی) اگر مَنْ تبعیضیہ لیا جائے تو حاصل اس صورت میں یہ ہوگا کہ جس قاتل کی کسی قدر خطا و قصور کہ جو اپنے بھائی مسلمان کے خون سے ہوئی ہے معاف کردی جائے اور اگر مَنْ ابتدائیہ لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ جس قاتل کی خطا ولی مقتول کی طرف سے معاف ہوجائے۔ بیضاوی نے کہا ہے کہ عفا لازم ہے اور بعض نے جو یہ کہہ دیا ہے کہ عفی بمعنی تُرِک ہے ( چھوڑ دی جائے) اور شؤ مفعول بہ ہے یہ قول ضعیف ہے کیونکہ عفی بمعنی ترک اب تک ثابت نہیں ہوا بلکہ عفی عنہ بمعنی ترک مستعمل ہے اور عفو بواسطہ کے مجرم اور جرم دونوں کی طرف متعدی ہوتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عفا اللہ عنک ( معاف کیا اللہ نے آپ سے) یہاں خطا کرنے والے کی طرف متعدی ہے اور فرمایا : عفی عنہا ( معاف کی وہ خطا) یہاں گناہ کی جانب تعدیہ ہوا ہے اور جب عفو ذنب ( گناہ) کی جانب متعدی ہو تو مجرم کی طرف بواسطہ لام کے متعدی ہوتا ہے یہ آیت کریمہ اسی استعمال کے موافق ہے گویا حاصل اس تقدیر پر یہ ہوگا کہ جس شخص کو اس کے قصور سے اس کے بھائی مسلمان کی طرف سے کچھ معافی دی جائے۔ پس اس صورت میں عفی مصدر کی طرف مسند ہوگا اور مَنْ احیہ میں مَنْ ابتدا کے لیے ہوگا۔ اخیر کی ان دونوں ترکیبوں پر شؤ کی تنکیر پہلی صورت میں تو اعس لیے ہوگی کہ یہ سمجھا جائے کہ قاتل کی کسی قدر خطا معاف ہوئی ہے اور دوسری صورت میں اس سبب سے ہوگی تاکہ یہ مفہوم ہو کہ کچھ حصہ عفو کا موجود ہے کل نہیں ہے اور اسی بنا پر یہاں فعل کی اسناد مصدر کی طرف صحیح ہوگئی کیونکہ اس صورت میں مصدر بیان نوع کے لیے ہوگا اور مراد عفو قلیل (کسی قدر معاف کرنا) ہوگا جیسے آیت : ان نظن الا ظنا ( بس خیال سا ہم کو بھی آتا ہے) میں ظنا سے ظن قلیل مراد ہے اس تفسیر کے موافق آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ جب مقتول کے تمام وارث معاف کردیں اور پوری جنایت معاف ہوجائے اس وقت دیت واجب ہے اور امام شافعی اور ان کے متبعین کی اس مسلک پر یہ آیت حجت ہوگی۔ از ہری کہتے ہیں کہ عفو اصل میں بمعنی فضل ( پس ماندہ) ہے اور آیت : یسئلونک مَا ذَا ینفقون قل العفو ( اے محمد ﷺ آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا شے خرچ کریں آپ فرما دیجئے کہ جو بچے میں عفو بمعنی فضل ہی مستعمل ہے اور نیز جب کسی کو بچا ہوا مال دے دیا ہو تو عرب اس کو عفوت لفلان بمالی اور عفوت لہ عمالی علیہ سے تعبیر کرتے ہیں اس توجیہ پر اخیہ میں اخ سے مراد مقتول کا وارث ہے اور معنی یہ ہوں گے کہ جس ولی مقتول کو اس کے مسلمان بھائی یعنی قاتل کے مال سے بطور صلح کے کچھ دیا گیا اور ان تفاسیر پر قاتل یا مقتول یا ولی مقتول کو اللہ تعالیٰ نے لفظ برادر سے کہ وہ برادری محض جلیسیت اور اسلام کی وجہ سے ہے اس لیے یاد فرمایا تاکہ اس پر رقت اور مہربانی سے متوجہ ہو اور اس عنوان سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قتل سے مسلمان کافر نہیں ہوتا کیونکہ اگر کافر ہوجاتا تو لفظ اخ ( بھائی) سے ذکر نہ فرماتے اور نیز صدر آیت میں اے ایمان والو سے خطاب فرمانا بھی اس پر صاف دال ہے۔ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ ۭ ( تو کچھ چلنا چاہئے دستور کے موافق اور اس کو دے دینا چاہئے خوش معاملگی سے یہ آسانی سے تمہارے پروردگار کی طرف سے اور مہربانی) فاتباع یا تو فعل محذوف کا فاعل ہو اس صورت میں تو یہ حاصل ہوگا کہ ولی مقتول کی طرف سے اتباع یعنی قبول ہونا چاہئے اور یا مبتدا محذوف کی خبر ہے اس تقدیر پر یہ ملخص ہوگا کہ ولی مقتول کو اتباع کا حکم ہے۔ بالمعروف یعنی ولی مقتول کو سختی نہ کرنی چاہئے بلکہ سلوک اور ملاطفت سے قبول کرلے۔ واداء ..... مبتد امحذوف الخبر ہے حاصل یہ ہے کہ قاتل کے ذمہ پر ولی مقتول کو ادا کرنا ہے باحسان یعنی ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے اور نہ مقدار میں کمی کرے پورا پورا وقت پر دیدے ذالک ..... یعنی یہ صلح کے جائز ہونے اور بعض ورثہ کے معاف کردینے کے بعد دوسرے ورثہ کے لیے دیت واجب ہونے کا حکم تمہارے پروردگار کی جانب سے تخفیف اور رحمت ہے۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس امت محمدیہ ﷺ پر بڑی رحمت ہے کہ ان کو دیت کا مال حلال فرما دیا پہلے کسی کے لیے حلال نہیں فرمایا یہود کے ذمہ قصاص تھا یا خون معاف کرنا دیت نہ تھی اور اہل انجیل کو خون معاف کردینے کا حکم تھا۔ قصاص بھی نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیسی تخفیف اور سہولت فرمائی کہ ان کے لیے قصاص اور معاف کردینا اور دیت لینا تینوں امر مشروع فرما دیئے۔ اللہ الحمد۔ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ( پھر جو زیادتی کرے اس کے بعد اسکے لیے عذاب درد ناک ہے) یعنی جو کوئی معاف کردینے یا دیت لینے کے بعد پھر بھی قتل کرے تو اس کو آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص عفو یا دیت میں سے ایک چیز کو اختیار کرے اور پھر حد سے متجاوز ہو یعنی قتل کے درپے ہو وہ آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ابن جریج نے کہا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کردینا واجب ہے ہرگز معافی نہ دی جائے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دیت لینے کے بعد قتل کرے اس کو معافی نہیں دوں گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد (رح) نے روایت کیا ہے۔
Top