Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : در حقیقت حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : سور وَمَآ : اور جو اُهِلَّ : پکارا گیا بِهٖ : اس پر لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنے والا وَّلَا : اور نہ عَادٍ : حد سے بڑھنے والا فَلَا : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا ہے
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے ہاں جو ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بےشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ ( بس اس نے تو حرام کیا ہے تم پر مردار) ابو جعفر نے المیتۃ کو تمام قرآن میں تشدید سے پڑھا ہے اور قراء نے بعض مواقع میں مشدد پڑھا ہے اور بعض میں نہیں ہم انشاء اللہ عنقریب مفصلاً ذکر کریں گے اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ لفظ انّما (سوائے اس کے نہیں) مفید حصر کو ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ نے سوائے مردار اور خون کے اور کوئی شے حرام نہیں فرمائی۔ حالانکہ سینکڑوں چیزیں حرام ہیں تو جواب یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک کوفہ کے نحویوں کا قول مختار اور پسندیدہ ہے اور ان کے نزدیک لفظ انما حصر کے لیے نہیں بلکہ یہ لفظ اِنّ حرف تحقیق اور مَا کافہ سے مرکب ہے اور اگر بالفرض حصر کے موافق آیت کا ترجمہ کیا جائے اور انما کو حصر ہی کے لیے رکھا جائے تو یہ حصرحقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے یعنی ان چیزوں کے اعتبار سے حصر ہے جن کو کفار نے اپنی طرف سے حرام کرلیا تھا جیسے بحیرہ و سائبہ و وصیلہ وحام وغیرہ واللہ اعلم۔ میتہ اس جاندار کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے مرجائے مگر اس میں اتنی قید اور ہے کہ ذبح ہونے کی اس میں شرعاً قابلیت بھی ہو اب اس کے موافق مچھلی اور مری ہوئی ٹڈی میتہ سے نکل جائیں گے یا تو یہ توجیہ کی جائے کہ تعریف میتہ میں تو ان کو داخل رکھا جائے لیکن یہ کہا جائے کہ حدیث نے ان کی تخصیص کردی ہے چناچہ ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردیئے گئے۔ مردار تو مچھلی اور ٹڈی اور خون جگر اور تلی اور اسی طرح جو گوشت زندہ جانور سے علیحدہ کرلیا جائے وہ بھی بحکم حدیث مردار کے حکم میں ہے۔ چناچہ ابوداؤد اور ترمذی نے ابی واقد لیثی (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو گوشت زندہ جانور سے کاٹ لیا جائے وہ مردار ہے۔ علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مردار کی بیع و شرا اس کی قیمت کھانا اور اس کی چربی اور کھال سے بغیر دباغت کے نفع اٹھانا جملہ امور ناجائز ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے انہوں نے جس سال مکہ فتح ہو اتھا رسول اللہ سے مکہ میں سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور مردار اور سور اور بتوں کی بیع کو حرام فرما دیا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ مردار کی چربی کا کیا حکم ہے لوگ تو کشتیوں میں پالش کرتے ہیں اور کھالوں میں اس کا روغن لگاتے اور روشنی سے اس کی منتفع ہوتے ہیں فرمایا سب حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہود کو خدا کھودے اللہ تعالیٰ نے ان پر مردار کی چربی حرام فرمائی تھی انہوں نے اس کو پگھلا کر اس کی خریدو فروخت کی اور اس کی قیمت کھائی۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا یہود کو کھودے ان پر مردار کی چربی حرام ہوئی انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کردیا۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور امام شافعی و احمد اور چاروں اصحاب سنن نے عبد اللہ بن حکیم سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا اس مضمون کا خط آیا کہ آگاہ رہو مردار کی غیر مدبوغ کھال اور اس کے پٹھے سے فائدہ اندوز نہ ہو۔ ابو داوٗد نے اپنی روایت میں اتنا اور زیادہ کیا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے ایک ماہ پیشتر کا ہے اور امام احمد کی روایت میں ایک ماہ یا دو ماہ پہلے آیا ہے۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مردار کے کسی جزو سے نفع نہ لو۔ اس حدیث کو ابوبکر شافعی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔ اور ابو داؤد و نسائی و حاکم نے حضرت اسامہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے درندوں کی کھال سے منع فرمایا ہے۔ حاکم نے اتنا بڑھایا ہے کہ درندوں کی کھال کو فرش بنانے سے منع فرمایا ہے اور معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے چیتوں کی کھال پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے اور احمد و نسائی نے مقدام بن معدی کرب ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم اور سونے اور چیتوں کی کھال کے تکیوں سے منع فرمایا ہے اور ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کپڑے میں چیتے کی کھال ہو فرشتے اس سے علیحدہ رہتے ہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا مردار کی کھال سے بعد دباغت کے بھی منتفع ہونا جائز ہے یا نہیں ؟ ابوحنیفہ (رح) اور شافعی کا تو یہ مسلک ہے کہ دباغت کے بعد کھال پاک ہوجاتی ہے اس سے نفع اٹھانا بھی جائز ہے اور اس کی بیع بھی جائز اور امام احمد اور مالک (رح) عدم جواز کے قائل ہیں ہماری دلیل مندرجہ ذیل احادیث ہیں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک مری ہوئی بکری کی طرف سے گذر ہوا فرمایا تم اس کی جلد کو کام میں کیوں نہ لائے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو مردار ہے فرمایا اس کا کھانا حرام ہے کیا یہ کھال پانی اور قرط سے پاک نہ ہوجاتی ( قرط ایک دوا ہے جس سے کھالوں کو دباغت دیتے ہیں) اور بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا گوشت حرام ہے اور جلد کی اجازت ہے۔ دار قطنی (رح) نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سب سندیں صحیح ہیں۔ اور نیز ابن عباس ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے جو کھال دباغت دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اسی مضمون کی اوروں سے بھی احادیث مروی ہیں چناچہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دباغت ہر کھال کو پاک کرنے والی ہے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امر فرمایا ہے کہ کھالوں کو جب دباغت دے دیا جائے تو اس سے منتفع ہوا کریں۔ حضرت سودہ ؓ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی تھی ہم نے اس کی کھال کو دباغت دیدی اور مالکیہ اور امام احمد (رح) کی دلیل وہ حدیث ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردار کے جزو سے منتفع ہونا جائز نہیں اور کہتے ہیں کہ آخری قول رسول اللہ ﷺ کا یہی ہے۔ کیونکہ عبد اللہ بن حکیم کی حدیث میں مصرح ہے کہ ہمارے پاس حضور ﷺ کا خط اس مضمون کا وفات سے ایک ماہ یا دو ماہ پیشتر آیا کہ مردار کے کچے چمڑے اور پٹھے سے نفع حاصل نہ کرو ہماری طرف سے مالکیہ اور امام احمد (رح) کو یہ جواب ہے کہ عبد اللہ بن حکیم کی حدیث کی سند اور متن مضطرب ہے اس لیے ہم نے جو صحیح صحیح حدیثیں پیش کی ہیں ان کے مزاحم نہیں ہوسکتی اور پھر دوسری بات یہ ہے کہ عبد اللہ بن حکیم کی حدیث میں لفظ اھاب مروی بے اور اھاب کچے چمڑے کو کہتے ہیں۔ کچے چمڑے سے ہمارے نزدیک منتفع ہونا جائز نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عبداللہ بن حکیم کی حدیث اوسط میں طبرانی اور ابن عدی کے نزدیک اس مضمون کی ہے کہ ہم جہینہ کی زمین میں تھے کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے تحریر فرمایا کہ میں تم کو مردار کی کھال کے بارے میں اجازت دے چکا تھا مگر اب لکھتا ہوں کہ مردار کی کھال اور پٹھے سے نفع حاصل نہ کرو تو اس سے تو صریح عدم جواز معلوم ہوتا ہے نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخری قول آپ کا یہی ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ اس کی سند میں فضالہ بن مفضل راوی ہے اور ابو حاتم رازی نے اس کی نسبت کہا ہے کہ وہ اسکا اہل نہیں ہے کہ اہل علم اس سے حدیث لکھیں۔ مردار کے بال ہڈی پٹھے سینگ اور سم میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اشیاء پاک ہیں ان کی بیع اور انتفاع دونوں جائز ہیں امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ناپاک ہیں امام احمد ومالک (رح) بال کو پاک فرماتے اور باقی چیزوں کو ناپاک کہتے ہیں۔ شافعی و احمد ومالک (رح) تینوں حضرات کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردار کے کسی جزو سے انتفاع حلال نہیں اور امام شافعی (رح) بالوں کی نجاست کے لیے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ناخن اور خون اور بالوں کو دفن کردیا کرو کہ یہ سب مردار ہیں حنفیہ کی طرف سے ان حضرات ثلٰثہ کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ دوسری حدیث کی سند میں ہم کلام کرتے ہیں کیونکہ اس میں ایک راوی عبد اللہ بن عزیز ہے اور اس کی نسبت ابو حاتم رازی نے یہ کہا ہے کہ اس کی احادیث منکر ہوتی ہیں اور میرے نزدیک پایہ صدق پر بھی نہیں پہنچیں اور علی بن حسین ؓ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن عزیز کچھ نہیں اس لیے ہم اس سے جھوٹی احادیث نہیں لیتے اور رہی پہلی حدیث سوا اس کی سند میں بھی کلام ہے اور قطع نظر اس کے ایک صحیح حدیث کے معارض ہے اور وہ صحیح حدیث ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردار کا صرف کھانا حرام ہے چناچہ بتمامہ اسے ہم پہلے نقل کرچکے ہیں اور جس قدر سندیں اس حدیث اوّل کی ہیں سب منکر ہیں اس لیے قابل اعتماد نہیں ہماری دلیل ایک اور حدیث ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف مردار کا گوشت کھانا منع فرمایا ہے۔ باقی جلد اور بال اور اون میں کیا برائی ہے لیکن اس کی سند بھی مخدوش ہے کیونکہ اس میں عبد الجبار ( راوی ضعیف ہے اگرچہ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے۔ نیز ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ مردار کا وہ حصہ جو کھایا جاتا ہے وہ تو حرام ہے باقی جلد بال صوف ودانت استخوان سب سے انتفاع حلال ہے لیکن اس کی سند بھی خالی از نظر نہیں اس میں ابوبکر ہذلی راوی متروک ہے غندر نے اس کی نسبت کذاب کا لفظ کہا ہے اور یحییٰ بن معین اور علی نے کہا ہے کہ ابوبکر ہذلی کچھ نہیں اور ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ ؓ کے لیے ایک ہار عصب کا اور دو کنگن ہاتھی کے دانت کے خرید فرمائے اس کی سند بھی نقش برآب ہے کیونکہ حمید اور سلیمان دونوں مجہول راوی ہیں اب ہمارا استدلال ذیل کے آثار سے ہے کہ جو بخاری نے تعلیقاً لکھے ہیں زہری (رح) نے مردار کی ہڈی جیسے ہاتھی دانت وغیرہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں نے علماء سلف کو ہاتھی دانت کے کنگھے سے بال درست کرتے اور ہاتھی دانت کی پیالی وغیرہ میں تیل لگاتے دیکھا ہے اس میں وہ کچھ حرج نہ جانتے تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ زہری کے سلف یا تو صحابہ ؓ ہیں یا بڑے بڑے تابعین ہیں اس تقدیر پر یہ فعل صحابہ ؓ اور تابعین کا ہوا پھر اس کے جواز میں کیا کلام رہا۔ حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ مردار کے پروں سے نفع مند ہونے میں کچھ ہرج نہیں، ابن سیرین اور ابراہیم نے کہا ہے کہ ہاتھی دانت کی تجارت میں کچھ برائی نہیں۔ واللہ اعلم وَالدَّمَ ( اور خون) اس سے سب کے نزدیک اَوْ دَمًَا مَسفوحًا کی موافقت کی وجہ سے بہتا خون مراد ہے۔ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ ( اور سور کا گوشت) سور بالاتفاق نجس العین ہے اس کے اجزاء کی حتیٰ کہ بالوں کی بیع وغیرہ بھی جائز نہیں قرآن پاک میں صرف گوشت کی اس لیے تخصیص فرمائی کہ حیوان سے بڑا مقصود گوشت ہی ہے اور باقی اجزاء تو مثل تابع کے ہیں۔ خنزیر کے نجس العین ہونے پر آیت : فَاِنَّہٗ رِجْسٌصاف دال ہے اور اس کی مفصل تفسیر مع مالہٗ و ما علیہ کے انشاء اللہ تعالیٰ سورة انعام میں آئے گی خنزیر کے بالوں سے نفع حاصل کرنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) و امام مالک (رح) تو اس سے جو تے و مشک بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امام شافعی حرام فرماتے ہیں اور امام احمد کراہت کے قائل ہیں۔ اگر سور کا بال قلیل پانی میں گرپڑے تو امام ابو یوسف کے نزدیک پانی نجس ہوجائے گا۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ نجس نہ ہوگا کیونکہ انتفاع کی اجازت پاکی کی دلیل ہے اور امام ابو یوسف اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ اجازت ضرورت کے وقت ہے اور ضرورت کا ظہور حالت استعمال میں ہوتا ہے پانی میں گرنا اور شؤ ہے اور استعمال اور شؤ ہے ہدایہ میں ایسا ہی مذکور ہے فقیہ ابو اللیث کہتے ہیں کہ اگر سور کے بال خریدنے سے ہی ملتے ہوں تو خریدنا جائز ہے ابن ہمام نے کہا ہے کہ سینا حد ضرورت سے خارج ہے اور شے سے بھی سی سکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ابن سیرین خنزیر کے بالوں کا سلاموزہ نہیں پہنتے تھے ابن ہمام کہتے ہیں کہ اس کے موافق نہ اس کی بیع جائز اور نہ انتفاع جائز ہے۔ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ (اور جس پر پکارا گیا اللہ کے غیر کا نام) ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ جانور ہے کہ جس کے ذبح کے وقت غیر اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اھلال اصل میں ہلال ( پہلی رات کا چاند) دیکھنے کو کہتے ہیں چناچہ بولتے ہیں اہل الہلال یعنی دیکھا چاند چونکہ چاند دیکھنے کے وقت لوگ بلند آواز سے تکبیر کہا کرتے ہیں اس لیے مطلق آواز بلند کرنے کو اہلال کہنے لگے اور کفار کی یہ عادت تھی کہ جب اپنے معبودوں کے لیے ذبح کرتے تو ان معبودوں کا بآواز بلند ذکر کرتے تھے۔ پھر اس فعل نے اس قدر شہرت پائی کہ ہر ذبح کرنے والے کو مہلٌّ ( آواز بلند کرنے والا) کہنے لگے اور جس جانور پر بسم اللہ پڑھنی سہواً یا قصداً ترک کردی جائے اس کا ذکر انشاء اللہ ہم سورة انعام میں کریں گے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ ( جو کوئی نا چار ہوجائے) عاصم اور ابو عمرو اور حمزہ نے فَمَنِ اضطُرَّ اور اَنِ اعْبُدُوا اللہ اور انِ احْکُمْ اور وَ لٰکِنِ انْظُر اور اَنِ اغْدُوْا میں نو ن کو مکسور پڑھا ہے اور لَقَدِ اسْتُھْزِءَ کی دال کو اور قالَتِ اخْرُجْ کی تاء کو اور فَتِیْلَانِ انْظُرْ اور مُبِیْنَانِ اقْتُلُوْا کی تنوین کو جب دوسرے ساکن کے بعد ضمہ لازم ہو اور ہمزہ وصل کی ابتداء ضمہ سے ہو مکسور پڑھا ہے اور ابن عامر تنوین کی صورت میں اتفاق کرتے ہیں اور اسی طرح قلِ ادْعُوْا اللہ کے لام کو اور اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ کے واؤ کو عاصم اور حمزہ نے مکسور پڑھا ہے اور لام کی صورت میں یعقوب بھی موافق ہیں اور باقی قراء نے تمام الفاظ مذکورہ میں فعل اوّل کو ضمہ سے پڑھا ہے اور ابو جعفر نے فَمَنِ اضْطُرَّ کی طاء کو نون کے کسرہ کی وجہ سے مکسور پڑھا ہے حاصل آیت کا یہ ہے کہ جس کو بھوک کی شدت یا کسی کے زبردستی کرنے سے چارونا چار مردار یا خون یا سور کا گوشت کھانا پڑے۔ اس کے لیے کھانا ان چیزوں کا حلال ہے اور یہ مسئلہ متفق علیہا ہے۔ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ ( کہ نہ خلاف کرنے والا اور نہ حد سے بڑھنے والا) ترکیب میں حال واقع ہوا ہے معنی یہ ہیں کہ ان چیزوں کو صرف جان بچانے کے لیے کھایالذت اور خواہش کا طالب ہو کر نہیں کھایا اور نہ قدر ضرورت سے زیادہ کھایا یہاں سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مضطر کو جان بچانے کی قدر کھانا جائز ہے اور زیادہ کی اجازت نہیں اور شافعی (رح) کے ایک قول کے موافق سیر ہو کر کھانا بھی جائز ہے اور یہی قول امام مالک کا ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت کے موافق یہی منقول ہے اور راجح امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ ہے کہ اگر یہ توقع ہو کر حلال قریب مل جائے گا تب تو سوائے جان بچانے کے زیادہ کھانا جائز نہیں اور اگر امید نہ ہو تو اس کے لیے سیر ہونا اور کچھ ساتھ توشہ کے طور پر لے لینا بھی جائز ہے بعض شافعیہ نے غَیْرَ بَاغٍ وَ لَا عَادٍ کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ضرورت کے وقت ان چیزوں کو کھایا مگر حاکم سے بغاوت نہیں کی اور نہ راہ زنی اور فساد کیا۔ بیضاوی نے کہا ہے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب یہی ہے کہ جو گناہ کی نیت سے سفر کرتا ہو اس کو ضرورت کے وقت بھی مردار وغیرہ کھانے کی اجازت نہیں اور جس قدر مسافر کے لیے سہولت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے وہ بھی اسے بلا تو بہ کیے جائز نہیں۔ صاحب معالم التنزیل علامہ بغوی (رح) نے فرمایا ہے کہ ابن عباس ؓ اور مجاہد اور سعید بن جبیر کا بھی یہی مسلک ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ باغٍ اور عادٍ میں بغی ( خلاف حکم کرنا) اور عدوان ( حد سے متجاوز ہونا) سے کھانے میں بےحکمی کرنا اور حد سے متجاوز ہونا مراد ہے اور مقاتل بن حبان نے کہا ہے کہ باغ کے معنی ” حلال سمجھنے والا “ اور عادٍ کے معنی طلب حال میں کوتاہی کرنے والا “ ہیں۔ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ( تو اس پر کچھ گناہ نہیں) یعنی اضطرار کی حالت میں ان چیزوں کے کھانے سے کچھ گناہ نہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ( بیشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے) یعنی جو کچھ مجبوری کی حالت میں کھالیا اللہ تعالیٰ اسے بخشنے والا ہے اور ان اشیاء کے کھانے کی اجازت دے دی اس لیے رحم کرنے والا ہے یہ آیت اس پر دال ہے کہ مضطر اگر مردار نہ کھائے اور مرجائے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ مجبوری اور نا چاری میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دیدی اور مباح فرما دیا ہے واجب نہیں فرمایا اور امام شافعی (رح) کا یہی مذہب ہے اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر مرجائے گا اور نہ کھائے گا تو گنہگار ہوگا اس لیے کھانا واجب ہے اور دلیل ان کی یہ آیت ہے : و قد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما ضطررتم الیہ ( یعنی جو کچھ تم پر حرام کیا گیا ہے اس کو خوب بیان کردیا گیا ہے مگر جس وقت مجبور ہوجاؤ اس کی جانب) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں سے ناچاری اور مجبوری کی حالت کی شئ کو استثناء فرما دیا ہے تو اس سے استثناء شدہ چیز مباح ثابت ہوئی اور یہ مسلم ہے کہ اگر ہلاکت کا خوف ہو تو مباح چیز کا کھانا واجب ہے اسلئے میتہ وغیرہ کا اضطرار کے وقت کھانا واجب ہے۔ رہی یہ بات کہ اسکو رخصت کیوں کہتے ہیں تو یہ اطلاق مجاز ہے ورنہ واقع میں وہ واجب ہے۔
Top