Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 157
اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر صَلَوٰتٌ : عنایتیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔ اور یہی سیدھے رستے پر ہیں
اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ( یہی ہیں جن پر رحمتیں ہیں ان کے پروردگار کی طرف سے) اُوْلٰءِکَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو صفات مذکورہ کے زیور سے اراستہ ہیں صلوٰۃ کے معنی لغت میں دعا کے ہیں اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کریں تو اس سے مراد وہ دعا نہیں ہوتی بلکہ دعاء پر جو ثمرہ مرتب ہوتا ہے وہ مراد ہوتا ہے مثلاً برکت مغفرت رحمت اور چونکہ رحمت اور برکت کی بہت سی انواع ہیں اس لیے صلوات بصغیہ جمع ارشاد فرمایا اور پھر لفظ رحمت تاکیداً زیادہ فرمایا۔ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ( یہی لوگ ہدایت پر ہیں) یعنی چونکہ ان لوگوں نے مصیبت پر اِنَّا ﷲِ ..... پڑھا اور حکم خداوندی پر رضا مندی کو اپنا شیوہ بنایا اس لیے یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت معاذ ؓ کا ایک فرزند دلبند وفات پا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو تعزیت نامہ لکھا اس میں یہ مضمون تھا کہ اے معاذ تمہارے بیٹے کو احکم الحاکمین نے بہت سے ثواب کے عوض لے لیا ہے اور وہ اجر صلوٰۃ اور رحمت اور ہدایت ہے ( مگر یہ سب کچھ اس وقت ہے کہ تم نے اس مصیبت میں امید ثواب کی رکھی ہو اور واویلا اور جزع فزع نہ کی ہو) حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دو چیزیں بہت ہی اچھی ساتھی ہیں اور ان پر ایک بہترین اضافہ بھی ہے وہ دو چیزیں صلوٰۃ اور رحمت ہیں اور وہ زیادتی ہدایت ہے۔ صابرین اور اہل بلا کی فضیلت میں بیشمار احادیث وارد ہوئی ہیں ہم یہاں نمونہ کے طور پر چند احادیث نقل کرتے ہیں۔ ترمذی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز جب دنیا کے مصیبت زدوں کو ثواب ملے گا تو جو لوگ یہاں آرام یافتہ ہیں وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ہماری کھال دنیا میں مقراض سے کاٹ دی جاتی کہ ہمیں بھی یہ نعمتیں ملتیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو جو رنج یا غم یا حزن یا کچھ تکلیف پہنچتی ہے حتیٰ کہ کانٹا بھی اگر پہنچتا ہے تو اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ بندہ کو جو مصیبت پہنچتی ہے اور پھر اس پر وہ اِنَّا ﷲِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اللّٰھُمْ اَجِرْنِیْ فِی مُصِیْبَتِی وَاخْلُفْ لِیْ خَیرًْا مِّنْھَا پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس مصیبت کا اسے ثواب دیتا اور اچھا عوض عنایت فرماتا ہے اور محمد بن خالد سلمی اپنے باپ سے اور ان کے باپ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ کے مقدر میں کوئی مرتبہ لکھا ہوتا ہے اور عمل اس کے ایسے ہوتے نہیں کہ وہ مرتبہ اس کو ملے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدن یا مال یا اولاد میں کچھ مصیبت پہنچا دیتا ہے وہ اس پر صبر کرتا ہے اور سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ سب سے زیادہ بلا اور مصیبت میں کون رہتا ہے اور فرمایا انبیاء پھر جو انبیاء سے کم ہیں اور اوروں سے افضل ہیں اسی طرح دین کی قوت وضعف کے اعتبار سے مصائب بھی قوی و ضعیف ہوتے ہیں اگر دین میں پختہ ہوتا ہے تو اس پر مصائب بھی سخت آتے ہیں اور اگر دین میں خام اور ضعیف ہوتا ہے تو مصیبت میں بھی کم گرفتار ہوتا ہے اور مؤمن مصیبت میں گرفتار چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔
Top