Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ ( اے ایمان والو مدد چاہو صبر سے) یعنی اپنے حوائج دینی اور دنیوی میں خاص کر درجات قرب و معرفت کے حاصل کرنے میں صبر اور نماز سے مدد لو۔ صبر لغت میں روکنے کو کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اپنی خواہشات نفسانیہ کو رو کو کیونکہ جہنم ان ہی سے ڈھکی ہوئی ہے اور اپنے نفس کو جانی اور مالی مشقتوں اور سختیوں پر روکو کیونکہ جنت ان ہی سے گھری ہوئی ہے۔ نیز بری مجالس سے یکسوئی اور ذکر وطاعت پر نفس کو مجبور کرو کیونکہ رسول اللہ نے خلوت کی فضیلت میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا عمدہ مال بکریاں ہیں کہ انہیں لے کر کسی پہاڑ کی چوٹی میں چلا جائے اور فتنوں سے اپنے دین کو بچائے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ وَالصَّلٰوةِ ( اور نماز سے) صبر میں اگرچہ نماز بھی داخل ہوگئی تھی لیکن نماز کے مہتم بالشان اور اُمُّ العبادات اور معراجِ مؤمن ہونے کی وجہ سے اسے خاص طور پر جدا گانہ ذکر فرمایا۔ حضرت علی ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اس حدیث کو صاحب مسند فردوس نے روایت کیا ہے اور انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ نماز مؤمن کا نور ہے۔ حضرت مجدد صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عبادت گذاروں کے درجات کی انتہاء اور باز گشت نماز کی حقیقت ہے اور نماز کی کثرت سے درجات میں ترقی ہوتی ہے اور صلوٰۃ حاجت کا ذکر پہلے گذر چکا۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ( بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اللہ کے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہونے کے معنی مفسرین نے یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مدد اور نصرت اور قبول دعا سے صابروں کے ساتھ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ساتھ ہونے سے ایک بلا کیف قرب مراد ہے اور وہ عارفین پر روشن ہے اور اس کی پوری حقیقت عالم الغیب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
Top