Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 151
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ
كَمَآ : جیسا کہ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا فِيْكُمْ : تم میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَتْلُوْا : وہ پڑھتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِنَا : ہمارے حکم وَيُزَكِّيْكُمْ : اور پاک کرتے ہیں تمہیں وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتے ہیں تم کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَيُعَلِّمُكُمْ : اور سکھاتے ہیں تمہیں مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
جس طرح (منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجے ہیں جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمہیں پاک بناتے اور کتاب (یعنی قرآن) اور دانائی سکھاتے ہیں، اور ایسی باتیں بتاتے ہیں، جو تم پہلے نہیں جانتے تھے
كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ ( جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں) اس میں قریش کو خطاب ہے اور لوگ ان کے تابع ہیں کیونکہ ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا تھا کہ اے ابراہیم ہم تم کو امام بنائیں گے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا کہ اے اللہ میری اولاد میں سے بھی امام بنائیے تو یہ اس دعا کی قبولیت ہے کہ قریش اور لوگوں کے سردار ہیں۔ دوسرے لوگ ان کے تابع ہیں۔ جناب سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لوگ قریش کے تابع ہیں کَمَا اَرْسَلْنَا لِاُتِمَّکے متعلق ہے اور معنی یہ ہیں کہ تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں جیسے کہ رسول بھیجنے کی نعمت پوری کی۔ محمد ابن جریر کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے دو دعائیں کی تھیں ایک تو یہ تھی : اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَتِنَا اُمَّۃًمُسْلِمَۃً لَّکَیعنی اے اللہ ہم کو اپنا فرمانبردار بنائیے اور ہمارے اولاد میں سے ایک امت کو بھی اپنا فرمانبردار بنائیے اور دوسری دعا یہ تھی کہ اے اللہ ان میں سے ایک رسول بھیجئے، سو آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول کریں گے یعنی تم کو ہدایت دیں گے اور مسلمان بنا دیں گے اور اپنی نعمت تم پر کامل کریں گے جیسے ہم نے ان کے رسول بھیجنے کی دعا قبول کرلی ہے اور کَمَا اَرْسَلْنَا۔۔ اُذْکرُونیجو بعد میں مذکور ہے اس کے متعلق ہے مطلب یہ ہے کہ جیسے میں نے تم کو رسول بھیج کر یاد کیا تم مجھ کو یاد کرو پھر میں تم کو یاد کروں گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بندہ جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اس کے یاد کرنے سے پہلے اور پیچھے اس کو اللہ تعالیٰ یاد کرتا ہے پہلے تو اس طرح کہ ذکر کی توفیق دیتا ہے اور بعد میں اس طور پر کہ اس یاد کی جزا دے گا۔ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ( ایک رسول تم ہی میں سے جو پڑھتے ہیں تم پر ہماری آیتیں اور تم کو پاک صاف کرتے ہیں اور سکھاتے ہیں کتاب اور علم اور بتاتے ہیں تم کو وہ باتیں جو نہ جانتے تھے تم رَسُوْلًا مِنْکُمْ میں رسول سے مراد محمد ﷺ ہیں تعلیم کو دو مرتبہ ذکر فرمانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تعلیم اور قسم کی ہے تو ممکن ہے کہ اس دوسری تعلیم سے مراد علم لدنی ہو کہ جو ظاہر قرآن سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ باطن قرآن اور سینہ بےکینہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے حاصل کرنے کا سوائے انعکاس اس نور کے اور کوئی طریقہ نہیں اور اس کی حقیقت کا ادراک بعید از قیاس ہے چناچہ رئیس صدیقین فرماتے ہیں کہ ادراک کے ادراک سے عاجز ہونا ہی خود ادراک ہے۔ (1) [ علم اور انکشاف دو طرح سے ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کے عمومی اور خصوصی احوال کو ذہن میں ترتیب دے کر ایک مخصوص نتیجہ اخذ کیا جائے مثلاً آگ کا محرق ہونا اس طرح سمجھا جائے گا کہ آگ ایک بہت زیادہ شدید الحرارت عنصر ہے اور ہر شدید الحرارت عنصرمحرق ہوتا ہے اس لیے یقیناً آگ محرق ہے گویا احراق نار کا علم چند اصول کی مقرر ترتیب کے بعد حاصل ہوا۔ اوّلاً آگ کا شدید الحرارۃ عنصر ہونا تسلیم کیا گیا پھر ہر شدید الحرارۃ عنصرکا محرق ہونا مانا گیا اس ترتیب فکری کے بعد آگ کا محرق ہونا سمجھ میں آیا یہ انجلاء اور انکشاف ذہنی عملی ترتیبی کے بعد حاصل ہوا لیکن اس ترتیب فکری کے لیے ضروری ہے کہ اوّل ذہن میں آگ کا مفہوم اور شدت حرارت کا تصور موجود ہو اگر آگ کی بالذات حرارت کا تصور کرنے سے ذہن عاجز ہوگا تو آگ کے محرق ہونے کا انکشاف نہیں ہوگا علم کی دوسری نوعیت اس طرح ہوتی ہے کہ بغیر ترتیب مقدمات کے نتیجہ کا انکشاف ہوجاتا ہے مثلاً سورج کا طلوع برف کی سردی آگ کی گرمی ہم بغیر کسی غورو فکر کے سمجھتے جانتے اور محسوس کرتے ہیں یہ دونوں قسمیں علم تحصیلی اور عملی کی ہیں علم کی ایک اور قسم ہے جس کو علم حضوری کہتے ہیں اس میں تصور ذہنی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی نہ شئی معلوم کی صورت ذہن میں آتی ہے بلکہ انسان کے نفس کے سامنے خودمعلوم اپنی پوری حقیقت اور احوال کے ساتھ بالاجمال موجود ہوتا ہے جیسے ہم اپنے وجود اور اپنی انانیت کو جانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہم ہم ہیں۔ باری تعالیٰ کی ذات صفات اور مبدء و معاد کے تمام فوق الطبعیات تفصیلی احوال کا انکشاف ذہنی ترتیب سے ممکن نہیں ہے ذہنی ترتیب میں مقدمات کا علم پہلے سے ہونا چاہئے اور الہیات کے مباحث میں اس کا امکان نہیں پھر یہ ذہنی عمل کبھی غلط بھی ہوتا ہے۔ طبیعات اور محسوسات میں بھی انسان کا فکریہ کبھی صحیح نہیں ثابت ہوتا۔ الٰہیات کا تو ذکر ہی کیا ہے وہاں فکر سے کام لینا ایسا ہے جیسے تاریکی میں مادرزاد نابینا کا ہاتھ پاؤں مار کر سیدھا راستہ دریافت کرنا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فکری اور کسبی عمل الٰہیات کے مباحث کو دریافت کرنے کے لیے قطعاً بےسود بلکہ ضرر رساں ہے رہا بدیہی علم کا حصول تو اس کی نفی بالکل ہی واضح ہے جس علم کو ہم غور و فکر کے بعد بھی حاصل نہیں کرسکتے اس کا حصول بغیر فکر و نظر کے کس طرح ہوسکتا ہے لا محالہ یہ کہنا پڑے گا کہ ہم باری تعالیٰ کی ذات صفات ملائکہ عالم مثال اور مبدء و معاد کے متعلق جو کچھ علم رکھتے ہیں اور ہم کو اس سلسلہ کا جو انکشاف ہوتا ہے وہ فوق العقل ہے عقل اس میدان میں دو ڑنے سے عاجز ہے اس روشنی کے حصول کا آلہ صرف وجدان ہے لیکن ہمارا عرفانی وجدان اتنا روشن اور مصفی نہیں کہ براہ راست صفحات قدسیہ اور موجودات غیر مادیہ اور حقائق ماضیہ و مستقبلہ کا ادراک کرسکے ہم کو ضرورت ہے کہ کوئی قوی روشن عکاس وجدان والی ہستی ہو جو آئینہ کی طرح دوزخ رکھتی ہو اس کی پشت پر مادیت کا مصالحہ چسپاں ہو اور سامنے کا رخ روشن ہو وہ اپنے روشن رخ کی صفائی کی وجہ سے غیر مادی الہیات کی آفتابی شعاعوں کو حاصل کرکے مادی پشت کی وجہ سے اپنے اندر سما سکے اور آفتاب معرفت کی طرف سے ہماری طرف ذرا اپنے رخ کو موڑ کر ہم پر پر تو انداز ہو سکے یہی آئینہ نبوت ہے جو علوم غیر مادیہ اور صفات قدسیہ کا نور چین بھی ہے اور ہم پر عکس ریزی بھی کرتا ہے ہمارا وجدان اسی آئینہ کے توسط سے روشن اور تابناک بن جاتا ہے ہم اسی سراج منیر سے اپنے اپنے وجدانی چراغوں کو بقدر ظرف روشن کرتے اور دوسروں تک اس سراج منیر کی روشنی پہنچاتے ہیں لیکن اس نور چینی پر توا ندوزی اور عکاسی کی حقیقت کو ادراک کرنے سے ہم عاجز ہیں ہمارا یہ علم حصولی تو قطعاً نہیں ہوتا ہاں حکمت اور کتاب کی ظاہری تعلیم یقیناً تحصیلی اور کسبی ہوتی ہے مگر یہ باطنی وجدانی روشنی حصولی نہیں ہوسکتی حضوری ہوتی ہے تصور اور تصویر کے توسل سے نہیں ہوتی مشاہدہ اور معائنہ کی شکل میں ہوتی ہے۔ مگر ہم اس ادراک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں ایک کیف ہوتا ہے ناقابل فہم و افہام ایک تاثر ہوتا ہے ادراک کی رسائی سے خارج پس صدیق اکبر کا یہ قول اپنے اندر ایک حقیقت عرفانیہ رکھتا ہے کہ ذات وصفات کے ادراک الادراک سے قاصر رہنا ہی ہمارے لیے ادراک ہے واللہ اعلم۔] حنظلہ بن ربیع اسیدی سے مسلم میں مروی ہے کہ مجھ سے ابوبکر ؓ ملے اور پوچھا کہ اے حنظلہ ! کیا حال ہے میں نے عرض کیا کیا پوچھتے ہو حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ فرمایا سبحان اللہ یہ کیا بات ہے میں نے کہا جس وقت ہم بارگاہ اقدس ﷺ میں حاضر ہوتے ہیں تو حضور ہم کو دوزخ اور جنت کا وعظ فرماتے رہتے ہیں اس وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب وہاں سے چلے آتے ہیں تو بیوی بچوں اور جائیداد کے قصوں میں ایسے مشغول ہوجاتے ہیں کہ کچھ یاد نہیں رہتا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا بھائی واللہ ہماری بھی یہی حالت ہے۔ چلو حضور ﷺ سے چل کر اس بارے میں دریافت کریں، حضور کی خدمت بابرکت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ حنظلہ تو منافق ہوگیا فرمایا یہ کیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کی خدمت میں جب تک ہم رہتے ہیں تو آپ ہم کو جنت دوزخ کا ذکر سناتے ہیں حتیٰ کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب چیز ہمارے سامنے ہے اور جب ہم یہاں سے جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور دنیا کے دھندوں میں مشغول ہوجاتے ہیں کچھ یاد نہیں رہتا۔ حضور ﷺ نے سن کر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تمہاری ہمیشہ وہی حالت رہے جو میرے پاس رہتی ہے تو تم سے ملائکہ تمہارے بچھونوں پر اور راستوں میں آ آکر مصافحہ کرنے لگیں لیکن اے حنظلہ یہ حالت کبھی کبھی ہوا کرتی ہے (حاصل یہ ہے کہ اگر یہی حالت رہے تو ملکیت غالب ہوجائے اور کارخانہ عالم بالکل درہم برہم ہوجائے اور یہ عالم عالم ملکوت ہوجائے اور اس عالم کے پیدا کرنے کی حکمت مفقود ہوجائے اس لیے یہی مناسب ہے کہ یہ حالت کبھی ہو) ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے علم کے دو برتن حاصل کئے ہیں ایک تو ان میں سے تم کو تقسیم کردیا اور دوسرے کی اگر میں تم میں اشاعت کروں تو میرا حلقوم کاٹ دیا جائے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے سراح حدیث نے کہا ہے کہ اس دوسرے علم سے مراد وہ احادیث ہیں کہ جن میں ظالم بادشاہوں اور خلفاء کے نام اور حالات تھے چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اے اللہ میں 60 ھ کے شروع سے اور لڑکوں کی سلطنت سے پناہ مانگتا ہوں۔ لڑکوں کی سلطنت سے یزید بن معاویہ کی خلافت مراد ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے جو ان شراح نے لکھا ہے کیونکہ چند واقعات جزئیہ کے علم کو علم کا برتن کہنا اور علوم شرعیہ کا قسیم بنانا کسی طرح مناسب نہیں علم کا برتن کہنے اور علوم شرعیہ کا مقابلہ ٹھہرانے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس علم سے مراد کوئی بڑا علم ہے جو علوم شرعیہ کی مثل اور مقابل بن سکتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس علم سے مراد علم لدنی ہے۔ اگر اس پر کوئی کہے کہ اچھا علم لدنی ہی سہی تو پھر اس میں گلا کٹنے کی کیا بات ہے تو جواب یہ ہے کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر میں اس علم کو زبان سے بیان کروں تو لوگ گلا کاٹ دیں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ علم لدنی کے معارف اور علوم کی تعلیم اس زبان قال سے ہرگز نہیں ہوسکتی اگر ہوسکتی ہے تو زبان حال سے یا ایک قلب کا دوسرے قلب پر عکس واقع ہونے سے کیونکہ زبان سے تعلیم تعلم چند امور پر موقوف ہے ایک تو یہ کہ وہ شے اس قسم کی ہو کہ جو علم اکتسابی سے حاصل ہوسکتی ہو اور دوسرے یہ کہ الفاظ اس کے مقابلہ میں موضوع ہوں اور تیسرے یہ کہ سامع کو وضع کا علم ہو اور علم لدنی میں یہ سب امور مفقود ہیں نہ تو علم حصولی سے مدرک ہوسکتا ہے بلکہ اس کا ادراک علم حضور سے ہوتا ہے کہ جس سے کسی وقت غفلت نہیں ہوتی اور نہ ان معارف کے لیے الفاظ موضوع اور نہ سامعین کو علم بالوضع جب یہ بات ہے تو اب جو کوئی ان معارف و علوم کو تعبیر کرے گا۔ ضرور (2) [ جب تک حقیقت و مجاز کے درمیان کوئی علاقہ اور مناسبت نہ ہو اس وقت تک مجازی معنی مراد نہیں ہوسکتے حقیقت وضعیہ کو چھوڑ کر مجاز کا استعمال قرآن مجید میں بکثرت ہے اور قرآن مجاز واضح ہیں لیکن معارف باطنہ اور علوم لدنیہ کے لیے کلام عربی بلکہ کسی زبان میں الفاظ کی وضع ہی نہیں ہے کیونکہ کسی اور تحصیلی معافی کے لیے الفاظ کی وضع ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے حضوری اور کشفی حقائق راوی صورتوں سے خالی ہوتے ہیں اس لیے ان کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے الفاظ کی وضع ناممکن ہے اب بطور استعارہ اگر ان غیرمادی حقائق کو بیان کیا جاتا ہے تو چونکہ مخاطب کے کسی ذہن کی رسائی سے وہ حقائق خارج ہیں اس لیے اس کی سمجھ میں اصل حقیقت نہیں آسکتی اور استعارہ آمیز بیان اس کے لیے گمراہ کن ثابت ہوتا ہے اور اس کا اعتقاد غلط ہوجاتا ہے یا استعارہ کے قابل فہم مطلب کو سمجھ کر وہ متکلم کو فاسق اور کافر کہنے لگتا ہے جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی کے کلام حقیقت آگیں کو پڑھ کر اور استعارات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ علماء شرک آمیز توحید میں مبتلا ہوگئے اور کچھ لوگوں نے ابن عربی کے کافر ہونے کا فتوٰی صادر کردیا۔ ہاں وہ علماء اس فتنہ سے محفوظ رہے جنہوں نے علوم غیر مادیہ اور حقائق ملکوتیہ کا ادراک نصوص الحکم اور فتوحات کے الفاظ سے نہیں کیا بلکہ اللہ نے براہ راست یا کسی صاحب باطن کی قلبی عکس ریزی کے ذریعہ سے غیرصوری معانی کا انکشاف حضوری مجمل طور پر عطا فرما دیا اور اصل حقیقت ان کے وجدان میں آگئی اب تفصیل توضیح اور تطبیق کے لیے جب انہوں نے ان کتابوں کو پڑھا تو اپنے وجدانی مجمل خاکہ کی تفصیل ان کو ان کتابوں میں نظر آئی اور ان کا علم حضوری اجمالی ان کتابوں کی توضیح کی وجہ سے تفصیل سے بدل گیا۔ 12 منہ ] استعارات مجاز کو کام میں لائے گا اور استعارات سے مقصود تک راہ یابی نہیں ہوتی بلکہ عوام تو ان استعارات کے مقصود سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں اسی لئے خبط میں پڑجاتے ہیں اور جو متکلم کی مراد ہے اس کے خلاف معنی سمجھتے ہیں اب یا تو متکلم کی تفسیق اور تکفیر کرتے یا خود کفر کے اعتقاد میں مبتلاہو جاتے ہیں اس وجہ سے فرمایا کہ اگر میں اس علم کو اس زبان سے بیان کروں تو لوگ سمجھیں گے نہیں اور مجھے کافر مرتد بنا کر قتل کر ڈالیں گے اب اگر کوئی یہ کہے کہ جب اس علم کی یہ حالت ہے کہ کوئی اسے بیان نہیں کرسکتا اور اگر بیان بھی کرے تو اس سے مفاسد اور قتل و قتال تک نوبت پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے حالانکہ بزرگوں نے اس باب میں بڑی بڑی صحیح کتابیں تصنیف کی ہیں جیسے فصوص الحکم، فتوحات مکیہ وغیرہ تو جواب یہ ہے کہ ان کتابوں سے غرض نہیں کہ محصلین کو یہ علوم حاصل ہوجائیں یا یہ کہ ان کے دیکھنے سے کچھ قرب اور ولایت مل جاوے بلکہ مقصود یہ ہے کہ جو سالکین جذب یا سلوک سے ان علوم کو اجمالاً حاصل کرچکے ہیں وہ ان کتابوں کو دیکھ کر تفصیل پر قادر ہوجائیں اور اپنے احوال و کیفیات کو اکابر کے حالات سے تطبیق دیں تاکہ صحت ان احوال کی ہویدا ہوجائے اور قلوب مطمئن ہوجائیں۔ دوسرا (3) [ یعنی جذب استغراق اور غلبہ حال کے زیر اثر ان بزرگوں نے اپنے الفاظ میں۔ ما فوق المادیت حقائق کی تعبیر کی جو ظاہری ضوابط شرعیہ کے خلاف ہے لیکن حالت جذب میں وہ چونکہ مرفوع القلم ہیں فقدان ہوش ان کو غیر مکلف بنا دیتا ہے مجنون توازن حواس کھو بیٹھتا ہے اس لیے حالت جنون میں مکلف نہیں رہتا اصحاب جذب کا جذبہ و استغراق کو مسی دماغ کو بگاڑنے کے لیے معمولی جنون سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے اس لیے ایسے لوگ مکلف ہی نہیں ہیں یہ عبارتیں تو ان کی زبانوں پر حالت جذب میں آگئیں تھیں لوگوں نے ان کو جمع کرکے کتابوں کی شکل دے کر شائع کردیا ورنہ ان کا مقصد شریعت کے خلاف طریقت قائم کرنے کا نہ تھا۔] جواب یہ ہے کہ ان بزرگوں نے قصدً اس قسم کی کتابیں نہیں لکھیں بلکہ غلبہ حال میں بہت سے مضامین ان کی زبان سے نکل گئے لوگوں نے انہیں نقل کرلیا۔ اب عوام کے لیے یہ مناسب ہے کہ اگر ایسی کتب کا مطالعہ کریں یا بزرگوں کا کلام سنیں تو ان پر انکار نہ کریں اور تابا مکان تاویل کرکے ظاہر شریعت کے موافق ان کے کلام کے معنی سمجھیں یا ان کے معانی اللہ تعالیٰ کے حوالہ کریں کیونکہ ان کے کلام میں طرح طرح کے مجازو استعارات ہیں اور وہ کسی طرح مخالف شرع کے نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کتاب و سنت کا مغز یہی ہے اللہ تعالیٰ ہم کو بھی یہ دولت اپنے فضل سے بخشیں آمین جب یہ معلوم ہوچکا کہ معارف و حقائق یا تو انعکاس قلوب سے حاصل حاصل ہوتے اور یا القاء سے دستیاب ہوتے ہیں اور کثرت ذکر و مراقبہ خواہ مجلس ذکر میں ہو یا خلوت میں اس انعکاس کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے اور وہ انعکاس خودجناب رسول اللہ ﷺ سے بلا واسطہ یا وسائط کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ ذیل کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اس ذکر کو بیان فرماتا ہے۔
Top