Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 97
وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا١ؕ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا
وَمَنْ : اور جسے يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ : پس وہی الْمُهْتَدِ : ہدایت پانے والا وَمَنْ : اور جسے يُّضْلِلْ : گمراہ کرے فَلَنْ تَجِدَ : پس تو ہرگز نہ پائے گا لَهُمْ : ان کے لیے اَوْلِيَآءَ : مددگار مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَنَحْشُرُهُمْ : اور ہم اٹھائیں گے نہیں يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَلٰي : پر وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہرے عُمْيًا : اندھے وَّبُكْمًا : اور گونگے وَّصُمًّا : اور بہرے مَاْوٰىهُمْ : ان کا ٹھکانا جَهَنَّمُ : جہنم كُلَّمَا : جب کبھی خَبَتْ : بجھنے لگے گی زِدْنٰهُمْ : ہم ان کے لیے زیادہ کردیں گے سَعِيْرًا : بھڑکانا
اور جس شخص کو خدا ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے۔ اور جن کو گمراہ کرے تو تم خدا کے سوا اُن کے رفیق نہیں پاؤ گے۔ اور ہم اُن کو قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے اور بہرے (بنا کر) اٹھائیں گے۔ اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جب (اس کی آگ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو (عذاب دینے کے لئے) اور بھڑکا دیں گے
وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِهٖ اور جس کو اللہ راہ راست پر لگا دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جن کو اللہ گمراہ چھوڑ دے (یعنی بےمدد چھوڑ دے اور کج راہی سے محفوظ نہ رکھے اور شیطانی اغواء اندرونی کو وہ قبول کرلیں) تو ان لوگوں کے لئے تم کو بجز خدا کے اور کوئی حمایتی نہیں ملے گا جو ان کو راہ راست پر ڈال سکے۔ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا : اور قیامت کے دن ہم ان کو اندھا گونگا بہرا اٹھائیں گے کہ وہ منہ کے بل چلیں گے یا منہ کے بل ان کو گھسیٹا جائے گا۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا ‘ کافر منھ کے بل قیامت کے دن کیسے چلے گا فرمایا جس خدا نے اس کو ٹانگوں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل اس کو چلا نہیں سکتا۔ متفق علیہ۔ ابو داؤد اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کا حشر تین طریقے پر ہوگا ‘ کچھ لوگ سوار ہوں گے۔ کچھ پیدل ‘ کچھ منہ کے بل (گھسٹتے ہوئے) ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ منہ کے بل کیسے چلیں گے ‘ فرمایا جس نے ٹانگوں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل بھی چلا سکتا ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور حضرت معاویہ بن جندب کی روایت سے اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ حضرت معاویہ بن جندب نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ تمہارا حشر کیا جائے گا۔ سوار ہونے کی حالت میں اور پیدل ہونے کی حالت میں اور تم کو گھسیٹا جائے گا منہ کے بل۔ (یعنی قیامت کے دن کچھ لوگ سوار کر کے لے جائے جائیں گے اور کچھ پیدل اور کچھ منہ کے بل گھسیٹ کر) نسائی ‘ حاکم اور بیہقی نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کی تین جماعتیں (بنا کر) اٹھائی جائیں گی ‘ ایک جماعت کپڑے پہنے کھائے پئے اور سواریوں پر سوار ہوگی اور ایک جماعت پیدل چلے گی اور دوڑے گی اور ایک جماعت کو ملائکہ منہ کے بل گھسیٹیں گے۔ اندھے گونگے بہرے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ کوئی ایسی صورت ان کے سامنے نہیں آئے گی جس کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور کوئی ایسا عذر بیان نہ کرسکیں گے جو قابل قبول ہو اور کوئی خوش کن مسرت آفریں بات ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔ کیونکہ آیات قدرت اور نشان ہائے عبرت کو دیکھنے سے ان کی آنکھیں اندھی تھیں۔ کلام حق سننے سے ان کے کان بہرے تھے اور کلمۂ حق بولنے سے ان کی زبانیں گونگی تھیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس تفسیر کی نسبت کی ہے۔ (حضرت ابن عباس ؓ کی اس تشریح کا حاصل یہ ہے کہ اندھا گونگا بہرا ہونے سے یہ مراد نہیں کہ وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکیں گے نہ بول سکیں گے نہ سن سکیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ آیات و ہدایات کو چشم بصیرت سے نہیں دیکھتے تھے اور کلمۂ حق کو گوش قبول سے نہیں سنتے تھے اور کلام حق زبانوں پر نہیں لاتے تھے ‘ اسی طرح قیامت کے دن وہ کوئی جاذب قلب شکل نہیں دیکھیں گے کوئی صدا مسرت آفریں نہیں سنیں گے اور کوئی قابل قبول عذر زبانوں سے نہ پیش کرسکیں گے اس تشریح کے بعد اس آیت میں اور ان آیات میں جن میں قیامت کے دن کافروں کو دیکھنا سننا اور بولنا مذکور ہے کوئی تعارض نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے فرمایا ہے وَرَأَی الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَمجرم دوزخ کو دیکھیں گے۔ دَعَوْا ہُنَالَکَ ثُبُوْرًاوہاں ہلاکت کو پکاریں گے۔ سَمِعُوْا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًاغصے اور جھنجھلاہٹ کو سنیں گے (ان آیات میں کافروں کا قیامت کے دن دیکھنا پکارنا اور سننا ثابت ہو رہا ہے اور آئندہ ایک آیت میں تینوں کا یکجائی تذکرہ ہے فرمایا ہے) رَبَّنَا ابصرنا وسمعنا فارجعنا نَعْمَلُ صَالِحًا کافر کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو دنیا میں لوٹا دے کہ ہم نیک کام کرلیں۔ ان آیات میں حقیقی رویت ‘ سماعت اور نطق کی صراحت ہے اور عُمْیًا وَُّ بکْمًا وَّ صُما سے حقیقی دیکھنے سننے اور بولنے کی نفی مقصود نہیں بلکہ اس بینائی ‘ شنوائی اور گویائی کی نفی مقصود ہے جو حضرت ابن عباس ؓ کی تشریح میں مذکور ہے فلا منافاۃ بَیْنَہُمَا) بعض اہل تفسیر نے (آیات کے تعارض کو دور کرنے کے لئے) یہ مطلب بیان کیا ہے کہ حشر کے وقت تو واقعی سب کافر اندھے ‘ گونگے بہرے ہوں گے۔ لیکن دوزخ کے سامنے جانے اور حساب کے لئے پیش ہونے کے وقت بینا شنوا اور گویا ہوجائیں گے۔ بعض نے کہا کہ حساب کے بعد جب موقف سے دوزخ کی طرف ان کو لے جایا جائے گا اس وقت ان کے حواس غائب ہوجائیں گے ‘ اس وقت گویائی سلب ہوجائے گی ‘ بینائی اور شنوائی زائل ہوجائے گی۔ سعید بن منصور اور بیہقی نے محمد بن کعب کا قول نقل کیا ہے کہ (دوزخ کے اندر) دوزخیوں کی پانچ مرتبہ درخواست ہوگی اور ہر مرتبہ کی پکار کا جواب اللہ دے دے گا ‘ اس کے بعد وہ بول ہی نہ سکیں گے۔ 1) دوزخی کہیں گے رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ۔ اللہ اس کے جواب میں فرمائے گا ذٰلِکُمْ بِاَنَّہٗ اِذَا ادُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ کَفَرْ تُمْ ۔۔ 2) پھر دوزخی کہیں گے رَبَنَّا اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ۔ اللہ جواب میں فرمائے گا فَذُوْقُوْا بِمَا نَسْیِتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا اِنَّا نَسِیْنَاکُمْ ۔۔ 3) پھر دوزخی کہیں گے رَبَّنَا اَخِّرْنَا اِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَاللہ جواب میں فرمائے گا اَوَلَمْ تَکُوْنُوْا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَکُمْ مِّنْ زَوَالٍ ۔ 4) پھر دوزخی کہیں گے رَبَّنَا اَخْرِجْنَا نَعْمَلُ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُاللہ جواب میں فرمائے گا اَوْلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ ۔۔ 5) پھر دوزخی کہیں گے رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَّآلِّیْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظَالِمُوْنَ ۔ اللہ جواب میں فرمائے گا اِخْسَءُوْا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنَاس کے بعد دوزخی کبھی کلام نہیں کریں گے۔ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا (پھر) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے وہ جب ذرا دھیمی ہونے لگے گی تب ہی ان کے لئے اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔ یعنی جب ان کی کھالیں اور گوشت جل چکیں گے اور آگ کی بھڑک میں کچھ سکون پیدا ہوجائے گا تو دوبارہ ان کو کھالیں اور گوشت پہنا دیا جائے گا اور اس ایندھن سے پھر آگ بھڑکائی جائے گی اور یونہی برابر ہوتا رہے گا۔ چونکہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھائے جانے کے وہ منکر تھے اس لئے اللہ بھی ان کو یہ سزا دے گا کہ بار بار مریں گے اور بار بار جئیں گے اور یہ سلسلہ قائم رہے گا اس کی طرف آیت ذیل میں اشارہ فرمایا۔
Top