Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 89
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : ور ہم نے طرح طرح سے بیان کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر مثال فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : سوائے كُفُوْرًا : ناشکری
اور ہم نے قرآن میں سب باتیں طرح طرح سے بیان کردی ہیں۔ مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا
وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا للنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ اور ہم نے لوگوں (کے سمجھنے) کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کا عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیا ہے۔ صَرَّفْنَا یعنی بار بار طرح طرح سے وضاحت اور تاکید کر کے ہم نے بیان کیا۔ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ہر مقصد اور معنی ‘ عبرتیں ‘ احکام ‘ وعدہ وعید وغیرہ۔ مَثَل کہاوت اپنے اندر ندرت رکھتی ہے قرآن کے اندر بھی ندرت ہے حسن ہے دل نشینی ہے یہ بھی ان اوصاف میں مثل کی طرح ہے۔ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا : پھر بھی اکثر لوگ بےانکار کئے نہ رہے۔ یعنی اکثر لوگوں نے سوائے کفر و انکار کے (قرآن کی ہدایت میں سے) کسی بات کو قبول کرنا پسند نہیں کیا۔ بغوی نے بوساطت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ : کا مندرجۂ ذیل بیان نقل کیا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ ابو سفیان بن حرب اور قبیلۂ عبدالدار کا ایک اور آدمی (بقول بغوی نضر بن حارث) اور ابوالبختری ‘ اسود بن المطلب ‘ زمعہ بن اسود ‘ ولید بن مغیرہ ‘ ابوجہل بن ہشام ‘ عبداللہ بن ابی امیہ ‘ امیہ بن خلف ‘ عاص بن وائل ‘ نبیہ بن حجاج ‘ منبہ بن حجاج اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ سب کے سب غروب آفتاب کے بعد کعبہ کی پشت کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا کہ کسی کو محمد ﷺ کے پاس بھیج کر ان کو بلواؤ اور ان سے بات چیت کرو اور جھگڑا طے کرلو تاکہ تمام حجت ہوجائے اور (پھر تم جو کچھ کرو) تم کو معذور سمجھا جائے ‘ چناچہ ایک شخص کو بھیج کر یہ پیام کہلوایا کہ تمہاری قوم کے سردار تم سے گفتگو کرنے جمع ہوئے ہیں آکر بات چیت کرلو۔ رسول اللہ ﷺ : کو خیال ہوا کہ لوگوں کی رائے میں کوئی نئی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے آپ تو دل سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کو ہدایت ہوجائے پیام ملتے ہی فوراً چلے آئے جب آکر بیٹھ گئے تو حاضرین نے کہا محمد ﷺ ہم نے آدمی بھیج کر تم کو اس غرض سے بلوایا ہے کہ تمہارے متعلق ہم حجت تمام کردیں کوئی عربی شخص آج تک اپنی قوم پر وہ مشکلات نہیں لایا جو تم اپنی قوم پر لائے ہو تم نے اسلاف کو گالیاں دیں ‘ ان کے مذہب کو برا کہا ‘ اہل عقل کو سبک سر قرار دیا ان کے معبودوں کو برا بھلا کہا ‘ جماعت میں پھوٹ ڈال دی کوئی ایسی قبیح بات باقی نہیں جو تم نے اپنے اور ہمارے درمیان پیدا نہ کردی ہو اگر اس چیز (قرآن اور اسلام) کو پیش کرنے سے تمہارا مقصد حصول زر ہے تو ہم آپس میں چندہ کر کے تم کو اتنا مال دینے کو تیار ہیں کہ تم سب سے زیادہ دولت مند ہوجاؤ۔ اور اگر تم عزت کے طلبگار ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بنا لیں گے اور حکومت چاہتے ہو تو اپنا حاکم بھی تم کو قرار دے سکتے ہیں اور اگر کوئی جن تم پر مسلط ہوگیا ہے جو یہ کلام تم کو بتاتا ہے اور تم اس کو لوٹا نہیں سکتے تو ہم تمہارے علاج کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کو تیار ہیں (کسی کاہن یا عامل کو روپیہ دے کر اس کا اتار کرا دیں گے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جتنی باتیں تم نے کہیں ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ میں یہ قرآن پیش کر کے نہ زر کا طلبگار ہوں نہ عزت و سیادت کا ‘ نہ حکومت واقتدار کا مجھے تو اللہ نے تمہارے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور مجھے ایک کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ (ماننے والوں کو جنت کی) خوشخبری دے دوں اور (نہ ماننے والوں کو دوزخ سے) ڈراؤں اب میں اللہ کا پیام پہنچا چکا اور تم کو نصیحت کرچکا اگر مان لو گے تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری خوش نصیبی ہوگی رد کر دو گے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا اور منتظر رہوں گا کہ اللہ میرا اور تمہارا کیا فیصلہ کرتا ہے۔ کہنے لگے محمد جو کچھ ہم نے پیش کیا اگر تم کو وہ قبول نہیں تو (اپنی پیغمبری کا ثبوت پیش کرو) تم واقف ہو کہ ہماری یہ بستی بہت تنگ ہے (ہر طرف سے پہاڑ گھیرے ہوئے ہیں ہم اس کو کسی طرف بڑھا نہیں سکتے) اور ہمارے پاس مال بھی سب (یعنی اہل یمن و شام) سے کم ہے اور ہماری زندگی بھی بہت زیادہ دکھی ہے پس تم اپنے رب سے درخواست کر کے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہماری بستی کو تنگ کر رکھا ہے یہاں سے ہٹوا دو کہ ہمارا یہ شہر پھیل جائے اور شام و عراق کی طرح (ہمارے ملک میں بھی) ہمارے لئے دریا بہا دو اور یہ بھی اپنے رب سے کرا دو کہ ہمارے آباء و اجداد زندہ ہوجائیں جن میں قصی بن کلاب (قریش کا مورث اعلیٰ ) بھی ضرور ہو وہ بڑا سچا آدمی تھا۔ پھر ہم ان سب سے دریافت کریں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ سچ ہے یا جھوٹ اگر وہ تمہاری تصدیق کردیں گے تو ہم بھی تم کو سچا مان لیں گے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا ہے جو پیام مجھے دے کر گیا بھیجا تھا وہ میں نے تم کو پہنچا دیا اگر مان لو گے تو دنیا و آخرت میں یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی قبول نہ کرو گے تو میں اللہ کے حکم کے انتظار میں صبر کروں گا۔ کہنے لگے اچھا اگر تم یہ نہیں کرتے تو اپنے رب سے کہہ کر اتنا ہی کرا دو کہ وہ تمہاری تصدیق کرنے کے لئے ایک فرشتے کو بھیج دے اور تم کو کچھ باغ اور سونے چاندی کے خزانے دے دے کہ جس تکلیف (اور افلاس) میں ہم تم کو دیکھ رہے اس سے تم بےغم ہوجاؤ ‘ تم بازاروں میں کھڑے ہماری طرح روزی کی جستجو میں لگے رہتے ہو پھر اس کی فکر تم کو نہ رہے ‘ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا مجھے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ‘ کہنے لگے اچھا تو ہمارے اوپر آسمان کو ہی گروا دو کیونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہارا رب اگر چاہے تو ایسا کرسکتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہ اختیار اللہ کو ہے اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرنا چاہے گا تو کر دے گا ‘ ایک شخص بولا ہم تو تمہاری بات اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک اللہ اور فرشتوں کو تم ہمارے سامنے لا کر شہادت نہ دلوا دو یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا لڑکا عبداللہ بن ابی امیہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور (راستہ میں) کہنے لگے محمد ﷺ ! تمہاری قوم نے چند باتیں تمہارے سامنے رکھیں اور تم نے کسی بات کو قبول نہیں کیا پھر انہوں نے چند باتیں طلب کیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے ہاں تمہارا مرتبہ خصوصی ہے تم نے ان کو بھی نہ مانا پھر انہوں نے تم سے کہا کہ جس عذاب سے تم ڈرا رہے ہو وہ جلد لے آؤ تم نے ایسا بھی نہیں کیا اب بخدا میں تمہاری اس بات کا صرف اس وقت ہی یقین کرسکوں گا کہ تم میری نظر کے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ۔ پھر میرے سامنے وہاں سے ایک کھلی ہوئی کتاب لے کر آجاؤ اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آئیں جو تمہاری تصدیق کریں اور میرا تو خیال ہے کہ اگر تم ایسا کر بھی گزرو گے تب بھی میں تمہاری تصدیق نہیں کرسکوں گا۔ کافروں کی اتنی نفرت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ : غمگین ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور آیات ذیل بَشَراً رَّسُوْلاً : تک نازل ہوئیں۔ ابن جریر نے بطریق ابن اسحاق ایک مصری شیخ (مجہول الاسم) کی وساطت سے بروایت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے اور سعید بن منصور نے بھی سعید بن جبیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ان آیات کا نزول حضرت ام سلمہ کے بھائی عبداللہ بن امیہ کے متعلق ہوا صاحب لباب النقول نے لکھا ہے یہ روایت مرسل ہے مگر صحیح ہے۔ سابق روایت میں جو ابہام تھا اس کی توضیح اس سے ہوجاتی ہے۔
Top