Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 87
اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ؕ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا
اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے اِنَّ : بیشک فَضْلَهٗ : اس کا فضل كَانَ : ہے عَلَيْكَ : تم پر كَبِيْرًا : بڑا
مگر (اس کا قائم رہنا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے۔ کچھ شک نہیں کہ تم پر اس کا بڑا فضل ہے
اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ : مگر یہ آپ کے رب کی رحمت ہے (کہ اس نے ایسا نہیں کیا) ۔ اس آیت کا مطلب دو طرح سے ہوسکتا ہے (1) مگر اللہ کی رحمت اگر ہو تو وہ ہی واپس دلوا سکتی ہے۔ (2) استثناء منقطع ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت نے اس قرآن کو باقی رکھا ہے تمہارے دلوں میں تحریروں میں قائم رکھا ہے ‘ اس مطلب پر اللہ کی طرف سے احسان ہونے کی دوہری صراحت کی گئی ہے ‘ قرآن کا نازل کرنا اور پھر اس کو باقی رکھنا۔ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا : واقعہ یہ ہے کہ اللہ کا فضل آپ پر بڑا ہے کہ اللہ نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا اور اپنی کتاب نازل فرمائی۔ پھر اس کو تحریروں اور دلوں میں جمع کرایا اور لوگوں سے بیان کرنے کا حکم دیا اور مقام محمود اور حوض کوثر آپ کو عطا فرمائی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا قیامت سے پہلے قرآن کو اٹھا لیا جائے گا۔ قبل اس کے کہ قرآن اٹھا لیا جائے تم اس کو پڑھا کرو (یعنی اس کو سمجھ لو اور اس پر عمل کرو) ایک شخص کہنے لگا یہ تحریریں تو اٹھائی جاسکتی ہیں (کہ نئی نقلیں کرنا لوگ چھوڑ دیں اور پرانی تحریریں بوسیدہ فرسودہ ہو کر مٹ جائیں۔ مترجم) لیکن جو قرآن سینوں میں ہوگا وہ کیسے اٹھا لیا جائے گا ‘ فرمایا لوگ رات گزاریں گے سینوں میں قرآن ہوگا پھر اٹھا لیا جائے گا صبح کو اٹھیں گے تو کچھ بھی یاد نہ ہوگا اور نہ لکھے ہوئے کاغذوں میں کچھ ملے گا آخر شاعری میں لگ جائیں گے (اور قرآن کی جگہ شاعری لے لے گی) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا قیامت بپا ہونے سے پہلے قرآن لوٹ کر وہیں چلا جائے گا ‘ جہاں سے اترا تھا ‘ شہد کی مکھیوں کی بھنبھاہٹ کی طرح عرش کے گرداگرد اس کی گن گناہٹ ہوگی ‘ اللہ فرمائے گا کیوں کیا بات ہے قرآن کہے گا اے میرے مالک مجھے پڑھا تو جاتا ہے مگر مجھ پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بغوی نے یہی بیان کیا ہے۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نکال لے بلکہ علماء کو قبض کرلے گا اور جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے جو بغیر جانے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیں گے۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت زیاد بن لبید کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض چیزوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا ایسا اس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ علم کیسے جاتا رہے گا ہم قرآن پڑھیں گے اور اپنی اولاد کو پڑھائیں گے اور ہماری اولاد اپنے بچوں کو پڑھائے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی قیامت تک چلتا رہے گا۔ فرمایا زیاد تجھ پر تیری ماں روئے ‘ میں تو تجھے مدینہ کے دانش مند آدمیوں میں سے سمجھتا تھا ‘ کیا یہودی اور عیسائی توریت و انجیل نہیں پڑھتے لیکن توریت و انجیل کے احکام پر عمل نہیں کرتے (یہی حالت مسلمانوں کی ہوجائے گی) ترمذی نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ اور دارمی نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے بھی یونہی بیان کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ میں نے خود حضور ﷺ : کو فرماتے سنا علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ‘ قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ میں (ہمیشہ نہیں رہوں گا) وفات پا جانے والا آدمی ہوں اور علم بھی قبض کرلیا جائے گا اور فتنے پیدا ہوجائیں گے فریضہ (ترکۂ میّت کی تقسیم) کے متعلق دو آدمیوں میں اختلاف ہوگا تو کوئی تیسرا آدمی ان دونوں کا فیصلہ کرنے والا نہ ملے گا (یعنی کوئی عالم ہی نہیں رہے گا کہ فیصلہ کرسکے) رواہ الدارمی و الدارقطنی۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے اسی حدیث کو سن کر قرآن کے تحریروں سے زائل ہوجانے اور سینوں سے فراموش ہوجانے کا ذکر فرمایا۔ صحیحین کی حدیث سے ظاہر ہورہا ہے کہ قبض علم کی صورت یہ ہوگی کہ علماء نہیں رہیں گے یہ مطلب نہیں کہ سینوں کے اندر سے قرآن نکال لیا جائے گا۔ حضرت زیاد کی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ قبض علم کا معنی صرف یہ ہے کہ علم پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ توفیق عمل ختم ہوجائے گی۔ ان تینوں احادیث و روایات کے باہم تعارض کو دور کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ اوّل علم کے مطابق عمل کی توفیق جاتی رہے گی۔ پھر علماء کی قلت ہوجائے گی۔ چناچہ یہ زمانہ قلت علماء کا ہی ہے پہلے علماء بہت تھے (پھر عمل میں کمزوری آئی) پھر تعلیم و تعلم میں کمی ہوئی اور علماء کم ہوگئے۔ سعید یا عکرمہ کی وساطت سے ابن جریر اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ سلام بن مشکم یہودیوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا ارکان جماعت کے نام راوی نے بیان کئے تھے اور عرض کیا ہم آپ کا اتباع کس طرح کرسکتے ہیں آپ نے تو ہمارا قبلہ بھی چھوڑ دیا اور جو کچھ آپ لائے ہیں (یعنی قرآن) اس میں توریت کی طرح ہم کو کوئی ربط نظر نہیں آتا ہم پر کوئی ایسی کتاب اتارو جس کو ہم پڑھیں اور (اس کی حقانیت و صداقت کو) پہچان لیں ‘ ورنہ جیسا آپ نے بیان کیا ہے ایسا تو ہم بھی پیش کرسکتے ہیں ‘ اسی پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top