Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ
: اور کچھ حصہ
الَّيْلِ
: رات
فَتَهَجَّدْ
: سو بیدار رہیں
بِهٖ
: اس (قرآن) کے ساتھ
نَافِلَةً
: نفل (زائد)
لَّكَ
: تمہارے لیے
عَسٰٓي
: قریب
اَنْ يَّبْعَثَكَ
: کہ تمہیں کھڑا کرے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
: مقام محمود
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو) ۔ (یہ شب خیزی) تمہاری لئے (سبب) زیادت ہے (ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل) ہے قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے
وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ : اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کی نماز پڑھو جو تمہارے لئے زائد چیز ہے۔ یعنی نماز کے لئے نیند کو ترک کر دو ۔ بہٖ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے۔ (اور قرآن سے مراد ہے نماز) صاحب قاموس نے لکھا ہے ہَجَدَ ہُجُودًا (ثلاثی مجرد) اور تَہَجَّدَ (باب تفعل) سو گیا اور بیدار ہوگیا دونوں معنی کے لئے مستعمل ہے لغات اضداد میں سے ہے۔ ہجد تہجیدا (باب تفعیل) بیدار کردیا اور سلا دیا یہ بھی اضداد میں سے ہے۔ اَہَجَدَ (باب افعال) ہجد کی طرح سو گیا اور سلا دیا (لازم بھی ہے اور متعدی بھی) حاصل بیان یہ ہے کہ جیم کی تشدید اگر (سلب ماخذ اور) ازالہ کے لئے قرار دی جائے تو نیند کو زائل کرنا اور بیدار کرنا مراد ہوگا اور اگر متعدی بنانے کے لئے قرار دی جائے تو سلا دینے کا معنی ہوگا۔ بغوی نے لکھا ہے تہجد جب بیدار ہوجانے کو کہتے ہیں تو یہ سونے کے بعد ہی ہوگا۔ (رات بھر جاگتے رہنے اور نمازیں پڑھنے کو تہجد نہیں کہا جائے گا) میں کہتا ہوں جب تہجد سے مراد ہے نماز کے لئے نیند کو ترک کرنا تو اس کی تینوں صورتیں ہوسکتی ہیں بالکل رات کو نہ سونا اور نماز پڑھتے رہنا۔ شروع رات میں بیدار رہ کر نماز پڑھنا ‘ سو جانا اور پھر بیدار ہو کر نماز پڑھنا۔ مؤخر الذکر صورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ حضرت ابوذر ؓ : کا بیان ہے ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھتے رہے اور آپ نے رات کو کبھی اٹھ کر ہم کو نماز نہیں پڑھائی جب آخری (عشرہ کی) سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چوبیسویں رات آئی) تو آپ ہم کو لے کر (نماز کو) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ (نماز میں) ایک تہائی رات گزر گئی۔ دوسری رات یعنی (تیس کی طرف سے شمار کرنے میں) چھٹی رات ہوئی تو آپ نہیں اٹھے (تیس کی طرف سے الٹی گنتی کرنے میں) پانچویں رات آئی تو پھر آپ ہم کو لے کر نماز کو کھڑے ہوگئے ‘ یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کاش حضور : ﷺ ہم کو ساری رات یہ نفل نماز پڑھاتے فرمایا آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھ کر واپس ہوجاتا ہے تو پوری رات کا قیام اس کے حساب میں لکھ دیا جاتا ہے جب چوتھی رات (یعنی تیسویں کی طرف سے گنتی کرنے کے بعد جو چوتھی رات پڑتی ہے) ہوئی تو آپ نے ہم کو نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ مہینہ میں تین راتیں رہ گئیں تو تیسری رات کو آپ ﷺ نے سب گھر والوں کو اور بیویوں کو اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور ہم کو لے کر نماز کو کھڑے ہوگئے (اور اتنی طویل نماز پڑھائی) کہ ہم کو فلاح کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوگیا راوی نے حضرت ابوذر سے دریافت کیا ‘ فلاح سے کیا مراد۔ فرمایا سحری۔ اس کے عبد (باقی دونوں راتوں کو) آپ نے نماز نہیں پڑھائی رواہ اصحاب السنن۔ ترمذی کی روایت میں ایک لفظ کا تغیر ہے۔ سائب بن یزید نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو جماعت سے گیارہ رکعتیں پڑھائیں۔ (حسب الحکم) امام (نماز میں) پڑھتا تھا اور اس حد تک طول قیام کرتا تھا کہ ہم لاٹھی کا سہارا لیتے تھے اور فجر کے آثار نمودار ہونے کے وقت فارغ ہوتے تھے۔ رواہ مالک فی الموطأ۔ حضرت ابی بن کعب ؓ : فرماتے تھے ہم رمضان میں نماز شب سے ایسے وقت فارغ ہوتے تھے کہ خادم صبح ہوجانے کے اندیشے سے جلد جلد کھانا تیار کرتا تھا۔ رواہ مالک۔ رسول اللہ ﷺ صبح کے قریب تک سفر جاری رکھتے تھے۔ (یعنی سواری پر صبح کے قریب تک نفلیں پڑھتے رہتے تھے) حضرت ابن عمر ؓ : کی روایت میں آیا ہے کہ سفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ اونٹنی پر ہی رات کی نماز پڑھتے تھے ‘ اونٹنی کا رخ جدھر کو ہوتا (پروا نہیں کرتے) اور (رکوع سجود کے لئے) اشارہ کرتے۔ وتر بھی اونٹنی پر ہی پڑھتے تھے ہاں فرائض (کے لئے اونٹنی روک کر نیچے اترتے تھے) صحیحین۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا لوگوں کی شروع رات کی نماز نفس کو خوب مرتاض بنانے والی ہوتی ہے ‘ کیونکہ سونے کے بعد آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب بیدار ہوگا۔ البتہ آخر رات میں تہجد پڑھنے کا ثواب شروع رات میں پڑھنے سے زیادہ ہے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول رحمت فرماتا ہے۔ (الحدیث) ۔ عبدالرحمن بن عبدالقاری نے بیان کیا میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ ایک رات رمضان کے مہینہ میں مسجد کی طرف گیا۔ کچھ لوگ الگ الگ متفرق نمازیں پڑھ رہے تھے اور بعض لوگ ایک چھوٹے سے گروہ کو ساتھ لے کر جماعت کر رہے تھے ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر میں ان سب کو ایک قاری کی امامت پر جمع کر دوں تو بہت ہی اچھا ہوگا ‘ چناچہ آپ نے حضرت ابی بن کعب ؓ : کو سب کا امام بنا دیا۔ پھر ایک اور رات جو آپ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیں ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ نئی بات اچھی ہے۔ لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں نماز پڑھ کر سو جایا کرتے تھے ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جس نماز سے تم سو جایا کرتے ہو (یعنی آخر شب میں بیدار ہو کر نماز نہیں پڑھتے) وہ اس نماز سے بہتر ہے جو تم پڑھتے ہو (یعنی شروع رات کی نماز سے آخر رات کی نماز افضل ہے) رواہ البخاری۔ مسئلہ شروع میں رات کی نماز رسول اللہ ﷺ پر بھی فرض تھی اور امت پر بھی ‘ اللہ نے فرمایا تھا یٰاَیُّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ الاَّ قَلِیْلاً نِصْفَہٗ ۔۔ پھر حکم میں تخفیف کردی گئی اور پنج وقتی نماز کی وجہ سے رات کی نماز کی فرضیت امت کے سر سے ساقط کردی گئی۔ البتہ نماز شب مستحب رہ گئی۔ اللہ نے فرمایا فاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ۔ کیا تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ پر فرض رہی یا آپ ﷺ کے لئے بھی فرضیت منسوخ ہوگئی ‘ اس مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر تہجد کا وجوب قائم رہا ‘ منسوخ نہیں کیا گیا ‘ حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ تین چیزیں مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لئے سنت ‘ وتر ‘ مسواک اور نماز شب (تہجد) اس قول پر آیت میں تہجد کا حکم وجوبی ہوگا اور نافلۃ لک کا یہ معنی ہوگا کہ تم پر یہ مزید فرض ہے (دوسروں پر نہیں ہے) میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ تہجد کی فرضیت رسول اللہ ﷺ سے بھی ساقط کردی گئی تھی اور آپ ﷺ کے لئے تہجد کی نماز مستحب ہوگئی تھی ‘ آیت کا صراحتاً یہی مفہوم ہے ‘ کیونکہ اگر نافلہ کا معنی مزید فرض ہوتا تو لک کی جگہ علیک (تم پر) کہا جاتا ہے وجوب کے بعد علیآتا ہے لازم نہیں آتا۔ ایک شبہ تہجد کی نماز نفل تو سب ہی کے لئے ہے پھر آیت میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ : کا ہی ذکر کیوں کیا گیا۔ ازالہ نوافل سے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ یہ حکم ساری امت کے لئے عام ہے ‘ لیکن رسول اللہ ﷺ : معصوم تھے آپ مرتکب گناہ نہیں ہوسکتے تھے۔ رہیں وہ لغزشیں جن کو ذنوب کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ بھی تمام اگلی پچھلی اللہ نے معاف فرما دی تھیں ‘ اب آپ کے نوافل کا کفارۂ گناہ بننا تو ممکن ہی نہیں ‘ ہاں آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ تہجد جو آپ کے لئے بھی نافلہ تھی وہ صرف آپ کے لئے ترقئ درجات کا ذریعہ تھی (نہ کہ معافی گناہ کا۔ اسی لئے آپ ﷺ کے لئے تہجد کو نافلہ خصوصیت کے ساتھ قرار دیا گیا) رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی تہجد کا نفل ہونا۔ حضرت مغیرہ ؓ : کی روایت کردہ حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت مغیرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قدر قیام شب کیا کہ آپ کے قدموں پر ورم آگیا ‘ عرض کیا گیا حضور کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت اللہ نے آپ کی تو اگلی پچھلی ساری لغزشیں معاف فرما دی ہیں ‘ فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ حضور ﷺ نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ میرے اوپر قیام شب فرض ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ سفر میں رسول اللہ ﷺ علاوہ فرائض کے (باقی) نمازیں اونٹنی پر سواری ہونے کی حالت میں پڑھتے رہتے تھے ‘ یہاں تک کہ وتر بھی سواری پر ہی پڑھتے تھے ‘ اونٹنی کا رخ جس طرف کو ہوتا (کچھ پروا نہ کرتے اس سے بھی معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز کے لئے بھی اونٹنی سے نہیں اترتے تھے اور تہجد آپ کے لئے بھی نفل تھا فرض نہ تھا) مسئلہ امت کے لئے تہجد سنت ہے۔ کیا سنت موکدہ ہے یا مستحبہ ‘ میرے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ تہجد سنت موکدہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس کو پابندی سے ادا کیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا اور بیان کیا گیا کہ وہ صبح تک برابر سوتا رہا (تہجد کے لئے) نماز کو نہیں اٹھا ‘ فرمایا اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا۔ متفق علیہ۔ اگر تہجد سنت موکدہ نہ ہوتا تو اس کو ترک کرنے والا عتاب اور ملامت کا مستحق نہ قرار پاتا۔ تارک مستحق ملامت نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ کے تہجد کی کیفیت حضرت زید بن خالد جہنی کا بیان ہے میں رات کو رسول اللہ ﷺ : کی نماز کو غور سے دیکھنا چاہتا تھا اس لئے میں حضور ﷺ کے دروازے کی دہلیز پر تکیہ لگائے دیکھتا رہا ‘ آپ اٹھے اور دو خفیف رکعتیں پڑھیں ‘ پھر دو طویل رکعتیں پڑھیں دو طویل رکعتیں ‘ دو طویل رکعتیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اس سے پہلے والی رکعتوں سے کم تھیں پھر دو رکعتیں جو ان سے بھی چھوٹی تھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ان سے بھی کم تھیں اس کے بعد وتر پڑھے یہ کل تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ رواہ مسلم۔ بغوی نے اسی طرح نقل کیا ہے لیکن صاحب مشکوٰۃ نے ” پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی والی دو رکعتوں سے چھوٹی تھیں “۔ یہ الفاظ چار بار نقل کئے ہیں (اس طرح کل رکعتیں پندرہ ہوجائیں گی) مشکوٰۃ میں یہ روایت کتاب الحمیدی اور موطا مالک اور سنن ابو داؤد اور جامع الاصول سے لی گئی ہے اس صورت میں وتر سے مراد ایک رکعت ہوگی اور بغوی کی روایت میں تین وتر مراد ہوں گے ‘ غرض کل رکعات تیرہ ہی رہیں گی۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رمضان اور غیر رمضان سب میں رسول اللہ ﷺ (رات کی نماز) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے (پہلی) چار رکعتوں کی خوبی اور طول کا حال تو کیا کہنے پھر (دوسری) چار رکعتوں کی خوبی اور طول بھی ناقابل بیان ہے ‘ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا وتر پڑھنے سے پہلے آپ سو جاتے ہیں ‘ فرمایا عائشہ ؓ میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔ رواہ البخاری ومسلم۔ حضرت عائشہ ؓ راوی ہیں کہ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد فجر تک رات میں رسول اللہ ﷺ : گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور آخر میں ایک رکعت پڑھتے تھے اور دو سجدے کرتے تھے۔ جن کی مقدار سر اٹھانے سے پہلے اتنی ہوتی تھی کہ آدمی پچاس آیات پڑھ لے اور مؤذن اذان فجر کہہ کے جب خاموش ہوجاتا اور فجر نمودار ہوجاتی تو آپ اٹھ کر دو خفیف رکعتیں پڑھتے ‘ پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔ پھر مؤذن آکر نماز کی اطلاع دیتا اور آپ نماز کے لئے باہر تشریف لے جاتے۔ کذا ذکر فی الصحیحین۔ حضرت انس بن مالک راوی ہیں جب بھی ہم رسول اللہ ﷺ : کو نماز شب میں مشغول دیکھنا چاہتے دیکھ سکتے تھے (یعنی رات میں نماز بھی پڑھتے اور سوتے بھی تھے) یہ بھی حضرت انس ؓ ہی کی روایت ہے کہ (کسی) مہینے میں آپ اتنے روزے رکھتے کہ ہم خیال کرتے اب اس مہینہ میں ناغہ نہیں کریں گے اور روزہ نہ رکھتے تو اتنے ناغے کرتے کہ ہم کہتے اب اس ماہ میں روزہ نہیں رکھیں گے۔ رواہ النسائی۔ حضرت عائشہ ؓ : کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعات پڑھتے وتر اور فجر کی دو رکعتیں اس میں شامل تھیں۔ رواہ مسلم۔ مسروق کا بیان ہے ‘ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ : کی نماز شب کے متعلق دریافت کیا ‘ فرمایا فجر کی دو رکعتوں کے علاوہ (کبھی) سات رکعتیں (کبھی) نو رکعتیں (کبھی) گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں۔ رواہ البخاری۔ حضرت عائشہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ : نماز پڑھنے رات کو اٹھتے تو دو خفیف رکعتوں سے آغاز کرتے تھے۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ رات کو تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو دو خفیف رکعتوں سے نماز کا آغاز کرے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے (ایک رات) میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سویا ‘ آپ ﷺ نے بیدار ہو کر مسواک کی ‘ پھر آیات اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِختم سورت تک تلاوت کیں پھر (وضو کر کے) نماز کو کھڑے ہوگئے اور دو رکعتیں پڑھیں ‘ جن میں قیام رکوع اور سجود بہت طویل کیا ‘ پھر نماز ختم کر کے سو گئے (اتنی گہری نیند سے) کہ سانس چلنے کی آواز آنے لگی ‘ پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے ‘ ایسا تین مرتبہ کیا کل چھ رکعتیں ہوگئیں ‘ ہر مرتبہ میں (اٹھ کر) مسواک بھی کرتے اور وضو بھی اور آیات مذکورہ کی تلاوت بھی کرتے تھے ‘ آخر میں تین وتر پڑھے۔ رواہ مسلم۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ : کا جسم مبارک بھاری پڑگیا تو زیادہ تر رات کی نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ متفق علیہ۔ حضرت حذیفہ کا بیان ہے ‘ میں نے رسول اللہ ﷺ : کو نماز شب پڑھتے دیکھا ‘ آپ نے اوّل تین بار اللہ اکبر فرمایا پھر پڑھا ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ اس کے بعد نماز شروع کی اور سورة بقرہ پڑھی ‘ پھر رکوع کیا اور تقریباً قیام کے برابر کیا جس میں پڑھتے رہے لربی الحمد پھر سجدہ کیا اور تقریباً قیام کے برابر طویل سجدہ کیا اور سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے رہے پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور دونوں سجدوں کے درمیان تقریباً سجدہ کے برابر بیٹھے رب اغفرلی ربّ اغفرلی پڑھتے رہے اس طرح چار رکعتیں پڑھیں جن میں سورة بقرہ ‘ آل عمران ‘ النساء اور مائدہ یا الانعام پڑھیں۔ رواہ ابو داؤد۔ حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور صبح تک ایک آیت یعنی اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ پڑھتے رہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ : عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ دیر کو لیٹ گئے پھر بیدار ہوئے اور آسمان کے کناروں کی طرف دیکھ کر پڑھا رَبَّنَا مَا خَلَقَتْ ہٰذَا بَاطِلا۔۔ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادتک۔ پھر بستر کی طرف ہاتھ بڑھا کر مسواک نکالی اور اس کے بعد ایک لوٹے سے پیالہ میں پانی الٹا اور دانتوں پر مسواک کی ‘ پھر نماز کو کھڑے ہوگئے اور میری نظر میں اتنی دیر نماز پڑھی جتنی دیر سوئے تھے۔ نماز کے بعد پھر لیٹ گئے اور میری خیال میں جتنی دیر نماز پڑھی تھی اتنی ہی دیر سوتے رہے پھر بیدار ہو کر وہی کیا جو پہلی بار کیا تھا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ یہ عمل حضور ﷺ نے فجر کی نماز سے پہلے تین بار کیا۔ رواہ النسائی۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ اتنی ہی دیر سوتے جتنی دیر نماز پڑھتے پھر جتنی دیر سوتے اتنی ہی دیر نماز پڑھتے پھر نماز کے بقدر سو جاتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ : کی قراءت کی تشریح فرماتے ہوئے ایک ایک حرف الگ الگ پڑھ کر سنایا۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی۔ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا :. امید ہے (یعنی امید رکھو) کہ تمہارا رب تم کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔ مقام محمود یعنی ایسا مقام جس کی ستائش اگلے پچھلے سب ہی لوگ کریں گے۔ بغوی نے ابو دائل کی وساطت سے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) : کو خلیل بنایا اور تمہارا ساتھی اللہ کا خلیل اور اس کے ہاں سب مخلوق سے زیادہ عزت والا ہے ‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاحضور ﷺ نے فرمایا اللہ اس کو عرش پر بٹھا لے گا ‘ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا اللہ کرسی پر متمکن کر دے گا۔ (اوّل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام محمود عرش ہے اور دوسری روایت میں صراحت ہے کہ وہ کرسی ہے) صحیح یہ ہے کہ مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے احمد ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مقام محمود وہ مقام ہے۔ جہاں میں اپنی امت کے لئے شفاعت کروں گا۔ حضرت انس ؓ کی روایت سے صحیحین میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مسلمانوں کو روک دیا جائے گا جس کی وجہ سے ان کو فکر ہوگی اور وہ کہیں گے کاش ہم کسی سے اپنے رب کے دربار میں سفارش کرا سکتے اور اللہ اس مقام سے ہم کو بچا دیتا ‘ چناچہ لوگ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پاس جا کر کہیں گے ‘ آپ سب لوگوں کے باپ ہیں ‘ اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی جنت میں آپ کو جگہ دی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھا دیئے آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے کہ وہ اس جگہ سے ہم کو رہائی عطا فرما دے ‘ آدم فرمائیں گے میں تمہارے لئے اس مقام پر نہیں ہوں آپ کو درخت ممنوعہ کا پھل کھانے کا اپنا قصور یاد ہوگا۔ فرمائیں گے تم لوگ نوح ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ (طوفان کے بعد) وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے زمین والوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا تھا لوگ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) فرمائیں گے۔ میں اس مقام پر نہیں ہوں آپ کو اپنا وہ قصور یاد ہوگا کہ نادانی میں (اپنے بیٹے کے لئے) نجات کی درخواست کی ‘ پھر آپ فرمائیں گے تم لوگ ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ ‘ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے آپ فرمائیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں آپ کو اپنے وہ تین جھوٹ یاد ہوں گے جو آپ کی زبان سے نکلے تھے (شاہ مصر کے سامنے ‘ حضرت سارہ کو اپنی بہن قرار دینا اور قوم کے ساتھ میلے میں شرکت نہ کرنے کے لئے اپنے کو بیمار کہنا اور بتوں کو خود توڑنے کے بعد قوم کے سامنے یہ کہنا کہ بڑے بت سے پوچھو اس نے ایسا کیا ہے) آپ کہیں گے تم لوگ موسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ ‘ ان کو اللہ نے توریت عنایت فرمائی تھی ان سے کلام کیا تھا ‘ ان کو اپنا مقرب بنا کر خطاب کیا تھا۔ لوگ موسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) فرمائیں گے میں اس مرتبے پر نہیں ہوں ‘ آپ کو اپنی وہ غلطی یاد ہوگی کہ ایک آدمی کو (غلطی سے) قتل کردیا تھا۔ فرمائیں گے تم لوگ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ عبداللہ تھے ‘ رسول اللہ تھے ‘ روح اللہ تھے ‘ کلمۃ اللہ تھے ‘ لوگ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جائیں گے آپ جواب دیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں ‘ تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اللہ نے ان کی اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی تھیں۔ لوگ میرے پاس آئیں گے میں اپنے رب سے اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت کا طلبگار ہوں گا اور اجازت ملنے پر اس کے پاس داخل ہوں گا اور جوں ہی میری نگاہ اس پر پڑے گی فوراً سجدے میں گر پڑوں گا اور جتنی دیر اللہ چاہے گا سجدے میں پڑا رہوں گا۔ پھر اللہ فرمائے گا محمد ﷺ سر اٹھا اور (جو کچھ کہنا ہے) بیان کر ‘ تیری بات سنی جائے گی۔ مانگ (جو کچھ مانگنا چاہے) تیرا سوال پورا کیا جائے گا۔ میں سجدے سے سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد وثناء کروں گا جو مجھے وہ سکھا دے گا ‘ پھر شفاعت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے ایک حد مقرر کر دے گا (یعنی محدود تعداد کی رہائی کا حکم دے دے گا) میں جا کر ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دوں گا ‘ پھر لوٹ کر آؤں گا اور دوبارہ بارگاہِ الٰہی میں داخلے کی اجازت کا خواستگار ہوں گا اور اجازت مل جائے گی اور اندر داخل ہوں گا اور جونہی میری نظر اس پر پڑے گی فوراً سجدے میں گر پڑوں گا اور جتنی دیر اللہ چاہے گا سجدے میں پڑا رہوں گا ‘ پھر اللہ فرمائے گا ‘ محمد سر اٹھاؤ (اپنا مقصد) بیان کرو ‘ تمہاری بات سنی جائے گی ‘ شفاعت کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ‘ مانگو ‘ تمہارا سوال پورا کیا جائے گا۔ میں سر اٹھاؤں گا اور حسب تعلیم الٰہی اپنے رب کی حمد وثناء کروں گا ‘ پھر شفاعت کروں گا اللہ میرے لئے (دوزخ سے لوگوں کو باہر نکال لانے کی) حد مقرر فرما دے گا میں بارگاہ خداوندی سے باہر آکر ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا (تیسری مرتبہ بارگاہ خداوندی میں داخل ہونا سجدہ میں گرپڑنا اللہ کی طرف سے خطاب ہونا سجدے سے سر اٹھا کر حمد و ثنا کرنا ‘ قیدیوں کی محدود تعداد کو رہا کرنے کا حکم ملنا اور جا کر ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دینا بھی انہی الفاظ کے ساتھ اس حدیث میں حضور ﷺ نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں ‘ اس کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) یہاں تک کہ دوزخ کے اندر سوائے ان لوگوں کے جن کو (ہمیشہ دوزخ میں رکھے جانے کی قرآن نے صراحت کردی ہے اور) قرآن نے (ہمیشہ کے لئے ان کو) دوزخ میں روک دیا ہے اور کوئی باقی نہیں رہے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی عَسٰی اَنْ یَّبْعَثٰکَ رَبَّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاحضور ﷺ نے فرمایا یہ ہی وہ مقام محمود ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے تمہارے نبی کے لئے کرلیا ہے۔ صحیحین میں حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث شفاعت ذکر کی گئی ہے اس روایت میں حدیث کے الفاظ اس طرح آئے ہیں ‘ میں اپنے رب کے پاس داخل ہونے کی اجازت طلب کروں گا مجھے اجازت مل جائے گی اور اللہ میرے دل میں کچھ کلمات حمد القاء کر دے گا جن سے میں اپنے رب کی حمد کروں گا ‘ اس وقت وہ الفاظ میرے سامنے نہیں (یعنی جو کلمات حمد میں قیامت کے دن مقام شفاعت میں پہنچ کر استعمال کروں گا وہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں) میں انہی الفاظ سے اپنے رب کی حمد کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا اللہ فرمائے گا محمد ﷺ سر اٹھاؤ اور (جو کچھ گزارش کرنی چاہتے ہو) بیان کرو تمہاری بات سنی جائے گی ‘ مانگو تم کو دیا جائے گا۔ شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا یا رب امتی امتی۔ حکم ہوگا جاؤ اور جس کے دل میں جو برابر ایمان ہو اس کو نکال لاؤ۔ میں جا کر حکم کی تعمیل کروں گا۔ پھر واپس آکر وہ کلمات ثنائیہ (حسب سابق) عرض کروں گا۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا حکم ہوگا جا کر اس کو نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہو۔ میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔ پھر حضور ﷺ نے تیسری اور چوتھی مرتبہ جانے اور شفاعت کرنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا میں عرض کروں گا اے میرے رب مجھے ان لوگوں کے نکال لینے کی اجازت دے دے جو لا الہٰ الا اللہ کے قائل تھے ‘ اللہ فرمائے گا قسم ہے اپنی عزت و جلال و کبریا اور عظمت کی جو لا الہ الا اللہ کا قائل تھا میں اس کو ضرور ضرور (دوزخ سے) نکال دوں گا۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ علماء نے اس روایت کی صحت میں قوی شبہ کیا ہے۔ کیونکہ حدیث کا شروع حصہ تو موقف کی تکالیف سے تعلق رکھتا ہے اور آخری حصہ میں شفاعت کا اور دوزخ سے لوگوں کو نکالنے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ شفاعت اور دوزخ سے برآمدگی کا واقعہ تو سب سے آخر میں ہوگا ‘ اس سے پہلے موقف حشر سے جدا ہونا پل صراط پر گزرنا اور گرنے والوں کا دوزخ میں گرنا ہوچکا ہوگا۔ حضرت حذیفہ کی صحیح روایت میں اس شفاعت کے بعد صراط سے گزرنے کا ذکر آیا ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ (حضرت ابو سعید ؓ : کی روایات میں آیا ہے کہ ہر امت کو حکم ہوگا کہ جس کی عبادت کرتے تھے ‘ اسکے پیچھے لگ جاؤ۔ پھر منافقوں کو چھانٹ کر مؤمنوں سے الگ کردیا جائے گا ‘ پھر پل صراط قائم کیا جائے گا اور لوگ اس پر سے گزریں گے ‘ پھر شفاعت کرنے اور دوزخ سے نکالنے کا حکم ہوگا ‘ گویا سب سے پہلے حکم ہوگا کہ ہر امت اپنے معبود کے پیچھے چلی جائے اس کے بعد موقف کی تکلیف سے نجات اور دوزخ سے نکالنے کا اور شفاعت کا حکم ہوگا ‘ قاضی عیاض اور نووی نے یہی ترتیب ذکر کی ہے۔ میں کہتا ہوں حدیث مذکورۃ الصدر میں کچھ اختصار ہے اوّل اس شفاعت کا ذکر ہے جو میدان قیامت اور موقف کی شدتوں سے رہائی دلانے کیلئے ہوگی اور آخر میں دوزخ سے رہائی کے لئے شفاعت کا ذکر کیا گیا ہے دو (قسم کی) شفاعتوں کا ذکر دوسری احادیث میں بھی آیا ہے۔ میرے نزدیک حدیث مذکور میں جو فی دارہ آیا ہے اس سے مراد جنت ہے اللہ کا دیدار صرف جنت میں ہی ہوگا (یعنی میدان حشر مرادیں نہیں ہے) اللہ کا مکان یا بارگاہ جنت سے باہر نہیں ہوسکتی۔ اللہ کو دیکھ کر سجدے میں گرپڑنا یقیناً جنت کے اندر ہی ہوگا۔ بخاری نے حضرت ابن عمر ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے کہ لوگ تیزی کے ساتھ ادھر سے ادھر جائیں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے لگ جائے گی اور اس سے شفاعت کی خواستگار ہوگی۔ آخر میں شفاعت کا اختیار رسول اللہ ﷺ : کو ہوگا یہ وہی ہوگا کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں کھڑا کر دے گا۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ سورج قریب آجائے گا اتنا کہ (اس کی گرمی سے) پسینہ آدھے کانوں تک آجائے گا ‘ اسی حالت میں لوگ حضرت آدم ( علیہ السلام) سے فریاد کریں گے۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) فرمائیں گے مجھے اس کا اختیار نہیں ‘ پھر (آخر میں) محمد : ﷺ کی نوبت آئے آئے گی اور وہ شفاعت کریں گے اور اللہ فیصلہ کرے گا ‘ محمد جا کر جنت کا دروازہ پکڑ لیں گے اس روز اللہ ان کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا یہ مقام ایسا ہوگا کہ میدان قیامت میں جمع ہونے والے سب لوگ اس کی تعریف کریں گے۔ بزار اور بیہقی نے حضرت حذیفہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ اللہ سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا (مگر) کوئی (کسی سے) بات نہیں کرے گا ‘ سب سے پہلے محمد : ﷺ کو پکارا جائے گا آپ جواب دیں گے لبیک (میں حاضر ہوں) وَسَعْدَیْکَ (اور حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہوں) وَالْخَیْرُ فِیْ یَدَیْکَ (اور ہر بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے) وَالشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَا (اور کسی شر کی نسبت تیری طرف نہیں ہے) وَالْمَہْدِیُّ مَنْ ہَدَیْتَ (اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو تو نے ہدایت کردی) وَعَبْدُکَ بَیْنَ یَدْبِکَ (اور تیرا بندہ تیرے سامنے حاضر ہے) وَبِکَ وَاِلَیْکَ (اور تیرے ہی سبب سے وہ موجود ہوا اور تیری ہی طرف اس کا رجوع ہے یعنی مخلوق کا آغاز بھی تجھی سے ہے اور سب کی واپسی بھی تیری ہی طرف ہے) لاَ مَنْجَاءَ مِنْکَ الاَّاِلَیْکَ (تجھ سے کسی کو مفر نہیں تجھ سے بھاگ کر ہر ایک کا تیری ہی طرف فرار ہے) تَبَارَکَتْ وَتَعَالَیْتَ رَبَّ الْبَیْتِ (اے کعبے کے مالک تو برکت والا اور سب سے بالاتر ہے) اس وقت آپ شفاعت کریں گے ‘ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے۔ عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔ ترمذی نے باسناد حسن اور ابن خزیمہ اور ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور (میرا یہ قول) فخر نہیں ہے اور (قیامت کے دن) حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور (یہ قول) بھی فخر نہیں ہے اس روز میں ہر بنی آدم ہوں یا دوسرے میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ زمین پھٹ کر سب سے پہلے میں ہی برآمد ہوں گا اور (یہ بات بھی میری طرف سے) فخر نہیں ہے (اس روز) لوگوں پر تین ہیبتیں اور گھبراہٹیں ہوں گی ‘ لوگ آدم ( علیہ السلام) کے پاس جائیں گے (اور شفاعت کے خواستگار ہوں گے) اور کہیں گے آپ ہمارے باپ ہیں ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) جواب دیں گے میں نے ایک بڑا جرم کیا تھا جس کی وجہ سے مجھے زمین پر اتار دیا گیا تم نوح کے پاس جاؤ نوح ( علیہ السلام) (کے پاس جب لوگ جائیں تو وہ) جواب دیں گے میں نے سب زمین کے باشندوں کو ہلاک کرنے کی بددعا کی تھی اور وہ (میری بددعا سے) ہلاک بھی کردیئے گئے تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ ‘ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے میں نے تین باتیں جھوٹی کہی تھیں ( رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ فرمایا ‘ انہوں نے کوئی بات جھوٹی نہیں کہی بلکہ جو بات بھی (بشکل کذب) کہی اس کا مقصد دین الٰہی کی طرف سے مدافعت تھی تم موسیٰ کے پاس جاؤ ‘ موسیٰ کہیں گے میں نے ایک شخص کو (نادانی سے) قتل کردیا تھا تم لوگ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ ‘ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کہیں گے میری تو اللہ کے سوا پوجا ہونے لگی تھی (لوگوں نے مجھے میرے بعد معبود بنا لیا تھا) تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ لوگ میرے پاس آئیں گے میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جنت کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر کھٹ کھٹاؤں گا دریافت کیا جائے گا کون ہے میں کہوں گا محمد ﷺ دروازہ کھول دیا جائے گا اور (فرشتے) کہیں گے مرحبا میں سجدہ میں گر پڑوں گا پھر اللہ میرے دل میں اپنی حمد و ثنا اور مجد القاء فرما دے گا اور حکم ہوگا اپنا سر اٹھاؤ۔ مانگو تمہارا سوال پورا کیا جائے گا۔ شفاعت کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی ‘ اظہار مدعا کرو تمہاری بات سنی جائے گی ‘ یہ ہی مقام مقام محمود ہوگا۔ قرطبی نے کہا تین ہیبتیں اور گھبراہٹیں میرے خیال میں اس وقت ہوں گی جب دوزخ کو لگاموں میں پکڑ کر کھینچ کر لایا جائے گا اور لوگ اس کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجائیں گے۔ ابن خزیمہ اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سلمان کا قول نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن سورج کو دس سال کی (مجموعی) گرمی دے دی جائے گی اور کھوپڑیوں کے قریب لے آیا جائے گا۔ مذکورہ حدیث میں آیا ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے آکر ملیں گے اور شفاعت کی خواہش کریں گے ‘ حضور ﷺ : فرمائیں گے ہاں میں تمہارا ساتھ دوں گا ‘ چناچہ آپ ﷺ چل کر جنت کے دروازے کی زنجیر پکڑ کر کھٹ کھٹائیں گے دریافت کیا جائے گا کون ہے آپ جواب دیں گے محمد ﷺ ۔ دروازہ کھول دیا جائے گا ‘ آپ ﷺ اللہ کے سامنے جا کر کھڑے ہوجائیں گے اور سجدہ کریں گے۔ ندا آئے گی اپنا سر اٹھاؤ مانگو تم کو تمہارا سوال دیا جائے گا ‘ شفاعت کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ یہ ہی وہ مقام محمود ہوگا (جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے) قرطبی نے یہ حدیث نا تمام ذکر کی ہے لیکن ابن ابی حاتم نے السنتہ میں اور ابن ابی شیبہ نے پوری حدیث بیان کی ہے جس کے آخر میں ہے کہ جس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے بقدر یا جَو کے دانہ کے برابر یا رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا اس کے حق میں شفاعت قبول کرلی جائے گی پس یہی مقام محمود ہوگا۔ طبرانی نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ لوگوں کو اٹھائے گا۔ میں اور میری امت اس روز ایک ٹیلہ پر ہوں گے اور میرا رب مجھے ایک سبز جوڑا پہنائے گا ‘ پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور میں اللہ کی ثناء کروں گا ان الفاظ کے ساتھ جن کا وہ مستحق ہے ‘ مقام محمود یہ ہی مقام (ثناء) ہے۔ فائدہ شفاعت کبریٰ کے متعلق متعدد احادیث مفصل آئی ہیں ‘ بزار ‘ ابوعوانہ ‘ ابو یعلی اور ابن حبان نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی روایت سے شیخین وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے۔ احمد اور ابو یعلی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے مسلم اور حاکم نے حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے۔ طبرانی ‘ ابن مبارک اور ابن جریر نے حضرت عقبہ بن عامر کی روایت سے یہ احادیث بیان کی ہیں۔ سورت ابراہیم کی آیت وَقَال الشَّیْطٰنُ لَمَا قُضِیَ الْاَمْرُکی تفسیر میں اس کی تشریح ہم نے کردی ہے۔ قرطبی نے لکھا ہے یہ ہی شفاعت عامہ جس کا حق صرف رسول اللہ ﷺ : کو عطا فرمایا گیا ہے اس حدیث میں مراد ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ‘ ہر نبی کو ایک مقبول دعا کا اختیار دیا گیا۔ چناچہ ہر نبی نے (اسی زندگی میں) اپنی دعا میں عجلت کرلی ‘ لیکن میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لئے اپنی دعا کو بچائے رکھا اور یہ شفاعت موقف والوں کے لئے ہوگی (یعنی میدان حشر میں جن کو روک لیا گیا ہوگا ان کی رہائی کے لئے شفاعت ہوگی) قرطبی نے کہا یہ شفاعت اس لئے ہوگی کہ ان کو موقف کی ہولناکی سے نجات مل جائے اور جلد حساب فہمی ہوجائے۔ میرے نزدیک اس شفاعت سے جو رسول اللہ ﷺ نے امت کے لئے بچائے رکھی ہے۔ تیسری شفاعت مراد ہے جو گناہگاروں کو دوزخ سے نکالنے کے سلسلے میں ہوگی ‘ رسول اللہ ﷺ : کو تین شفاعتوں کا حق ہوگا۔ ابن جریر نے تفسیر میں طبرانی نے المطولات میں ابو یعلی نے مسند میں بیہقی نے البعث میں ابو موسیٰ مدینی نے المطولات میں علی بن معبد نے کتاب الطاعۃ و العصیان میں اور ابوالشیخ نے کتاب العظمۃ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ایک طویل حدیث بیان کی ہے جس میں صور کی پیدائش ‘ کا پھونکے جانے کا نفخۂ خوف و بےہوشی کا ‘ قبروں سے اٹھنے کا اور آخر میں اہل جنت کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخلے کا بیان ہے اور ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جن کی گردنوں پر لکھا ہوگا یہ وہ دوزخی ہیں جن کو رحمن نے خود دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ ہم ذیل میں اس حدیث کو مختصرا نقل کرتے ہیں۔ اس حدیث میں مذکور ہے کہ لوگوں کو ایک جگہ روک کر کھڑا کردیا جائے گا اور ان کا (مدت تک) کچھ فیصلہ نہ ہوگا ‘ لوگ چیخ پڑیں گے اور سفارش کے طلب گار ہوں گے۔ پہلے آدم کے پاس جائیں گے۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) فرمائیں گے مجھے اس کا اختیار نہیں۔ غرض یہ لوگ ایک کے بعد دوسرے نبی کے پاس اور دوسرے کے بعد تیسرے نبی کے پاس اس طرح متعدد انبیاء کے پاس جائیں گے اور ہر ایک شفاعت کرنے سے انکار کر دے گا ‘ یہاں تک کہ میرے پاس آئیں گے ‘ میں ان کے ساتھ چل دوں گا اور عرش کے سامنے پہنچ کر سجدہ میں گر پڑوں گا ‘ باوجودیکہ اللہ بخوبی عالم ہے ‘ لیکن دریافت فرمائے گا تیری کیا ضرورت ہے ؟ میں عرض کروں گا اے میرے رب ‘ تو نے مجھ سے (حق) شفاعت عطا فرمانے کا وعدہ کیا تھا اب اپنی مخلوق کے سلسلے میں میری سفارش قبول فرما اور ان کا فیصلہ کر دے (انتظار میں روکے نہ رکھ) اللہ فرمائے گا ‘ میں نے تیری سفارش قبول کی ‘ میں آکر تمہارا فیصلہ کئے دیتا ہوں۔ اس طویل حدیث میں چوپایوں اور وحشی جانوروں کے فیصلہ کا بھی ذکر ہے۔ پھر انسانوں کے باہمی حقوق اور قتل و خون کا فیصلہ ہوگا (یہ بھی حدیث میں مذکور ہے) پھر حکم ہوگا ‘ ہر شخص یا ہر امت اپنے اپنے معبودوں سے جا ملے ‘ سب لوگ اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ ہوجائیں گے صرف مؤمن رہ جائیں گے جن میں منافق بھی شامل ہوں گے۔ یکدم اللہ اپنی پنڈلی کھول دے گا تو مؤمن فوراً سجدے میں گرپڑیں گے اور ہر منافق گدی کے بل پیچھے گرے گا (اس کی کمر نہیں جھکے گی) گائے کی پشت کے مہروں کی طرح اس کی پشت ہوجائے گی۔ پھر پل صراط قائم کیا جائے گا اور لوگ اس پر سے گزریں گے۔ کچھ لوگ تو بالکل بےداغ بچ جائیں گے ‘ بعض لوگوں کے کچھ خراشیں لگ جائیں گی مگر بچ وہ بھی جائیں گے (اور پل کے پار ہوجائیں گے) اور کچھ آمیوں کے چہرے (آنکڑوں سے) زخمی ہوجائیں گے اور وہ آگ میں گرپڑیں گے جب اہل جنت جنت تک پہنچ جائیں گے تو اندر داخل ہونے کے لئے پھر کسی شفیع کے طلب گار ہوں گے کہ کوئی سفارش کر کے ان کو جنت میں داخلے کی اجازت دلوا دے۔ چناچہ (سب سے پہلے) اپنے باپ آدم ( علیہ السلام) کے پاس پہنچیں گے۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) اپنے گناہ کو یاد کر کے کہیں گے مجھے اس کا اختیار نہیں ہے ‘ تم نوح ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ نوح کے پاس جائیں گے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) بھی حضرت آدم ( علیہ السلام) کی طرح جواب دے دیں گے ‘ پھر لوگ ابراہیم اور موسیٰ ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور ہر ایک ایسا ہی جواب دے دے گا۔ بالآخر میرے پاس آئیں گے۔ مجھے اللہ سے تین شفاعتوں کا حق ملا ہوا ہے اس نے مجھ سے اس کا وعدہ فرما لیا ہے ‘ میں جنت کی طرف جا کر دروازے کی زنجیر پکڑکر دروازہ کھولنے کی درخواست کروں گا ‘ دروازہ کھول دیا جائے گا اور جونہی میں نظر اٹھا کر اپنے رب کی طرف دیکھوں گا ‘ فوراً سجدے میں گر پڑوں گا ‘ اللہ مجھے اپنی حمد وثناء اور بزرگی بیان کرنے کی ایسی مخصوص اجازت عطا فرمائے گا جو کسی کو نہیں دی ہوگی ‘ پھر فرمائے گا ‘ محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ مانگو ‘ تم کو دیا جائے گا ‘ میں عرض کروں گا۔ اے میرے رب تو نے مجھ سے شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اہل جنت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما ‘ ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دے۔ اللہ میری شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب دوزخ والے دوزخ میں گرجائیں گے اور ایک کثیر مخلوق اس میں چلی جائے گی جن کو ان کے اعمال نے وہاں باندھ رکھا ہوگا تو ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے کہ صرف قدموں تک ان کے آگ ہوگی ‘ اس سے اوپر نہ ہوگی۔ کچھ لوگوں کے نصف پنڈلیوں تک آگ ہوگی ‘ کسی کے زانو تک آگ ہوگی ‘ کسی کی کمر تک ہوگی اور بعض ایسے بھی ہوں گے کہ سوائے چہروں کے باقی تمام بدن کو آگ نے پکڑ لیا ہوگا۔ صرف ان کے چہرے اللہ نے آگ کے لئے حرام کردیئے ہوں گے۔ میں عرض کروں گا ‘ اے میرے رب میری امت کے کچھ لوگ آگ میں ہیں ‘ اللہ فرمائے گا جن کو تم پہچانتے ہو ان کو دوزخ سے نکال لو۔ حسب الحکم وہ لوگ نکال لئے جائیں گے ‘ یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ اس کے بعداللہ شفاعت کی اجازت دے دے گا اور کوئی پیغمبر اور شہید ایسا نہ ہوگا جو شفاعت نہ کرے ‘ اللہ حکم دے گا جن دلوں میں تم دینار (برابر ایمان پاؤ ان کو) نکال لو۔ پھر (نوبت بنوبت) فرماتا جائے گا جس کے دل میں دو تہائی دینار ‘ نصف دینار ‘ چہارم دینار ‘ ایک قیراط۔ رائی کے ایک دانہ کے برابر ایمان ہو اس کو بھی نکال لو یہاں تک کہ دوزخ کے اندر جب کوئی شخص ایسا باقی نہیں رہے گا جس نے اللہ کے لئے کوئی بھلائی کبھی کی ہو اور ہر شفاعت کا حق رکھنے والا شفاعت کرچکے گا تو اللہ فرمائے گا اب میں رہ گیا اور میں ارحم الراحمین ہوں ‘ یہ فرمانے کے بعد اللہ اپنے ہاتھ جہنم میں ڈال دے گا اور بیشمار مخلوق کو جہنم سے نکال لے گا۔ ان کے جسم (سوختہ ہو کر) کوئلے کی طرح ہوگئے ہوں گے۔ (الحدیث) ۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top