Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار کرتا ہے۔ اور جو گمراہ ہوتا ہے گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا۔ اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْــتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ۚ : جو شخص دنیا میں سیدھے راستے پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لئے چلتا ہے۔ یعنی جو کوئی ہدایت یاب ہوگا تو اس کا فائدہ خود اسی کو ملے گا کسی کا ہدایت یافتہ ہونا دوسروں کو عذاب سے نہیں بچائے گا۔ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا : اور جو راستہ بھٹکتا ہے سو وہ اپنے نقصان کے لئے بےراہ ہوتا ہے۔ یعنی جو گمراہ ہوگا اسی کو اپنی گمراہی کا وبال اٹھانا پڑے گا اور اس کی گمراہی دوسروں کی ہلاکت کا باعث نہ ہوگی۔ ابن عبدالبر نے ایک کمزور سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ : کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک بار حضرت خدیجہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے (ان) بچوں کا (جو بلوغ سے پہلے مرگئے ہوں) حکم دریافت کیا حضور ﷺ نے فرمایا وہ اپنے باپوں سے (پیدا ہوئے) ہیں (لہٰذا انہی کے حکم میں داخل ہیں) کچھ مدت کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے یہی سوال کیا تو فرمایا (اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ (اگر بڑے ہوجاتے تو) کیا کرتے اس کے بعد جب اسلام مستحکم ہوگیا اور حضرت خدیجہ ؓ نے یہی سوال کیا تو آیت ذیل نازل ہوئی۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ: کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے (کے گناہ) کا بار (اپنے اوپر) نہیں اٹھائے گا۔ بلکہ صرف اپنے گناہ کا بار اپنے اوپر اٹھائے گا۔ وِزْرَ سے مراد ہے بار گناہ۔ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا : اور ہم رسول ﷺ : کو بھیجے بغیر (کسی کو) عذاب دینے والے نہیں۔ یعنی زندگی کے قوانین شرعیہ پیش کرنے اور آخری حجت ختم کرنے والے پیغمبروں کو بھیجے بغیر ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں۔ امام شافعی (رح) نے کہا یہ آیت بتارہی ہے کہ جس شخص کو دعوت پیغمبر کی اطلاع نہ پہنچی ہو فقط عقل و ہوش ملنے کی وجہ سے اس پر کوئی اعتقادی یا عملی حکم واجب نہیں ہوتا ‘ پس پیغمبر کی دعوت نہ پہنچنے کی وجہ سے اگر کوئی شرک یا عملی معصیت کا مرتکب ہو تو اس کو عذاب نہ ہوگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا حاکم اللہ ہی ہے لیکن انسانی عقل بجائے خود اللہ کو ایک سمجھنے اور تمام عیوب و نقائص سے پاک جاننے اور معجزات کی روشنی میں نبوت کا اقرار کرنے کی مکلف ہے ‘ اقرار توحید و رسالت کا مدار عقل پر ہے حکم خداوندی اور ہدایت رسول پر نہیں جس کو بعثت نبی کی اطلاع نہ پہنچی ہو یا انبیاء کو اللہ مبعوث ہی نہ کرے تب بھی توحید و تنزیہ کا اعتراف عقل کا فریضہ ہے تمام شرائع اور احکام کا مدار توحید و نبوت کے اقرار پر ہے ‘ اب اگر توحید و نبوت کے اقرار کا مدار بھی حکم شریعت پر ہوگا تو دور پیدا ہوجائے گا اور اس چکر کے نتیجے میں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یوں سمجھو احکام شرعیہ نبوت و توحید کے اقرار پر مبنی ہیں اور نبوت و توحید کا اقرار حکم شرع پر مبنی ہے تو احکام شرعیہ خود ہی اپنی ذات پر موقوف ہوں گے پس انبیاء کے مبعوث نہ ہونے یا بعثت کی اطلاع نہ پانے کی وجہ سے اگر کوئی شخص شرک کرے گا تو مجرم اور مستحق عذاب ہوگا۔ اس قول کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ (حضرت آدم سے) فرمائے گا۔ آدم ! حضرت آدم ( علیہ السلام) جواب دیں گے لبیک ‘ حاضر۔ تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ فرمائے گا (اپنی اولاد میں سے) دوزخ کا حصہ نکالو۔ آدم ( علیہ السلام) عرض کریں گے ‘ دوزخ کا حصہ کیا۔ اللہ فرمائے گا ‘ نو سو ننانوے فی ہزار۔ یہ فرمان ایسا ہوگا کہ (جس کی ہیبت سے) بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے اور ہر حاملہ کو اسقاط ہوجائے گا اور لوگ نشہ والوں کی طرح (بےقابو اور) مدہوش نظر آئیں گے ‘ حالانکہ وہ نشہ آور چیز پیئے ہوئے نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ : ﷺ وہ ایک (نجات یافتہ) ہم میں سے کون ہوگا فرمایا تم کو بشارت ہو کہ تم میں سے ایک (جہنمی) ہوگا اور یاجوج ماجوج میں سے ہزار۔ الی آخر الحدیث۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عقل پانے کے بعد ہر شخص توحید کے اقرار کا مکلف ہے ‘ دیکھو یاجوج ماجوج کی قومیں سد کے پار ہوں گی ان میں کوئی پیغمبر مبعوث نہ ہوگا پھر بھی ان پر عذاب ہوگا۔ دو پیغمبروں کی درمیانی مدت میں جب کہ سلسلۂ رسالت (عارضی طور پر) منقطع ہوگیا ہو جو لوگ پیدا ہوئے ہوں گے ‘ قیامت کے دن ان کی جانچ کی جائے گی۔ بزار نے حضرت ثوبان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن اہل جاہلیت (دور اسلامی سے پہلے کے لوگ جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے صحیح دین پر نہ تھے) اپنے بار اپنی اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ‘ اللہ ان سے باز پرس کرے گا وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس اپنا کوئی رسول نہیں بھیجا تھا نہ ہم کو تیرا حکم پہنچا اگر تو کوئی رسول ہمارے پاس بھیجتا تو ہم سب سے زیادہ تیرے فرمانبردار بندے ہوتے اللہ فرمائے گا اچھا اگر میں تم کو اب کوئی حکم دوں تو مانو گے (اہل جاہلیت جواب دیں گے ‘ بیشک ہم مانیں گے) اللہ ان سے پختہ عہد و پیمان لے کر حکم دے گا ‘ جاؤ دوزخ میں داخل ہوجاؤ ‘ حسب الحکم وہ لوگ دوزخ کی طرف چلیں گے ‘ جب (قریب پہنچ کر) اس کو دیکھیں گے تو ڈر کر واپس لوٹ پڑیں گے اور عرض کریں گے ‘ اے ہمارے رب ہم کو تو دوزخ سے ڈر لگتا ہے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے اللہ فرمائے گا ‘ ذلیل ہو کر اس میں داخل ہو (یعنی اس وقت تم نے نافرمانی کی اب ذلت کے ساتھ تم کو دوزخ میں جانا پڑے گا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ پہلی ہی مرتبہ دوزخ میں داخل ہوجاتے تو آگ ان کے لئے ٹھنڈی پڑجاتی اور سلامتی بن جاتی۔ امام احمد اور ابن راہویہ نے اپنی اپنی مسندوں میں اور بیہقی نے کتاب الاعتقاد میں حضرت اسود بن سریع کی روایت سے بیان کیا ہے اور بیہقی نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن چار آدمی ایسے ہوں گے جو (اپنے گمراہ ہونے کی) حجت پیش کریں گے۔ بہراپٹ ‘ احمق ‘ پیر فرتوت جو وسواس کی حد تک پہنچ چکا ہوگا ‘ اور وہ شخص جو دور جاہلیت میں مرا ہوگا۔ بہرا کہے گا ‘ میرے رب اسلام آیا تو میں نے دعوت اسلامی نہیں سنی مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دیتا تھا۔ احمق کہے گا جب اسلام آیا تو (میری یہ حالت تھی کہ) بچے میرے مینگنیاں مارتے تھے (میں تو پاگل تھا) پیر فرتوت کہے گا اسلام جس وقت آیا تو میں سمجھ سے قاصر تھا کچھ سمجھتا ہی نہ تھا اور دور جاہلیت میں جو شخص مرگیا ہوگا وہ کہے گا اے میرے رب میرے پاس تو تیرا کوئی رسول ہی نہیں آیا (اللہ فرمائے گا کیا اب اگر تم کو کوئی حکم دیا جائے تو تعمیل کرو گے وہ لوگ تعمیل کا وعدہ کریں گے) اللہ ان سے تعمیل حکم کا مضبوط وعدہ لے کر حکم دے گا کہ دوزخ میں چلے جاؤ (وہ داخل ہوں گے اور ڈر کر لوٹ آئیں گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ : کی جان ہے اگر وہ دوزخ میں (حکم ملتے ہی) داخل ہوجاتے تو آگ ان کے لئے ٹھنڈی پڑجاتی اور سلامتی بن جاتی۔ تینوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ اس کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ ان میں سے جو کوئی (تعمیل حکم میں) دوزخ کے اندر گھس جائے گا آگ اس کے لئے خنکی بخش اور سلامتی کا باعث ہوجائے گی اور جو اپنی (خوشی سے) داخل نہ ہوگا اس کو کھینچ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ ابن مبارک نے کہا مجھ سے مسلم بن یسار نے بیان کیا کہ قیامت کے دن ایک اندھے بہرے گونگے بندے کو اٹھایا جائے گا ‘ جس نے نہ کبھی کچھ سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا نہ کوئی بات کی ہوگی اللہ اس سے فرمائے گا جو حکم میں نے تجھے دیا تھا اور جو کچھ عطا کیا تھا تو نے اس پر کیا عمل کیا وہ عرض کرے گا ‘ اے میرے رب خدا کی قسم نہ تو تو نے مجھے آنکھیں دیں جن سے میں لوگوں کو دیکھتا نہ کان دیئے کہ تیرے اوامر ونواہی کو سنتا نہ مجھے زبان دی کہ میں اچھی بری بات کہتا میں تو بس ایک لکڑی کی طرح تھا۔ اللہ فرمائے گا اب اگر میں تجھے کچھ حکم دوں تو تعمیل کرے گا وہ شخص جواب دے گا جی ہاں اللہ فرمائے گا تو آگ میں گر پڑ یہ حکم سن کر وہ انکار کرے گا تو دھکے دے کر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ میں حنفیہ کے قول کے موافق کہتا ہوں کہ مشرک اگر با ہوش ہے تو اس کو خواہ پیغمبر کی دعوت نہ پہنچی ہو ‘ پھر بھی شرک کرنے کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ ) اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔ اس حکم میں بطور عموم وہ لوگ بھی داخل ہیں ‘ جو دور اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں شرک پر مرگئے ہیں ‘ ممکن ہے وہ اللہ کے سامنے اپنی ناواقفیت کا عذر پیش کریں اور اللہ قیامت کے دن ان کا امتحان لے کر آخر جہنم میں بھیج دے۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرک کا انکار کریں گے اور ثبوت و شہادت طلب کریں گے تو ان کے اعضاء خود ان کے خلاف شہادت دیں گے اور اللہ کی طرف سے ثبوت مکمل ہوجائے گا اور شرک کا عذاب اللہ جس کو چاہے گا دے گا اور یہ تقاضاء عدل کے خلاف بھی نہ ہوگا (کیونکہ شرک سے روکنے والی اور توحید کی طرف رہنمائی کرنے والی عقل اللہ نے ان کو عطا کردی تھی ‘ اس کے لئے کسی مزید پیام بھیجنے کی ضرورت نہ تھی) البتہ دوسرے صحیح ضوابط زندگی سمجھنے کے لئے چونکہ عقل انسانی کافی نہیں ہے اس لئے بغیر رسالت و بعثت کے کوئی شخص ان کا مکلف نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا (مَا کَان اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَّعْدَ اِذْ ہَدٰہُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمْ مَا یَتَّقُوْنَ ) اللہ ایسا تو نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد گمراہ کر دے تاوقتیکہ ان باتوں کو کھول کر بیان نہ کر دے جن سے ان کو بچنا ضروری ہے۔ صاحب مدارک نے حنفیہ کے مسلک کی بناء پر آیت کا تفسیری مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ پیغمبرکو بھیجے بغیر ہماری طرف سے یہ بات نہیں ہوسکتی کہ دنیا میں کسی کو بیخ بن سے اکھاڑ پھینکنے کا عذاب دیں (گویا آیت میں لفظ معذبین سے مفسر مدارک کے نزدیک دنیوی عذاب اس طرح دینا مراد ہے کہ جڑ بنیاد سے کسی قوم کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے) میں کہتا ہوں یہ تفسیر بہت ہی دور از فہم ہے کیونکہ معذبین کا لفظ عام ہے دنیوی اور اخروی ہر طرح کے عذاب کو شامل ہے نکرہ منفی کی نفی عام ہوتی ہے کوئی وجہ نہیں کہ اس لفظ سے صرف عذاب دنیا اور عذاب دنیوی میں سے بھی خاص طور پر عذاب استیصال مراد لیا جائے کیونکہ یہ امر ظاہر ہے کہ جب بغیر اتمام حجت کے عذاب دینا ممکن نہیں تو عذاب آخرت کیسے ہو سکے گا (نفی تو دونوں کو شامل ہے) ۔ اس لئے قبل بعثت عذاب نہ دینے سے مراد ہے معاصی اور بد اعمالیوں پر عذاب نہ دینا۔ عذاب شرک کی نفی مراد نہیں ہے (نہ عذاب استیصال کی نفی) ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ لفظ رسولاً عقل کو بھی شامل ہے لفظ رسول کے اندر پیغمبر بھی داخل ہیں اور ہر انسان کی تندرست عقل بھی۔ عقل بھی اللہ کی طرف سے ایک رسول ہے جو خیر و شر کا فرق بتاتی ہے اور اچھائی برائی کی اس کے ذریعہ سے تمیز ہوتی ہے۔ پس عقل انسانی جن فرائض و حقوق کا ادراک کرسکتی ہے ان کے ترک پر انسان کو عذاب دیا جائے گا (خواہ شرک ہو یا بدیہی واضح امور خیر و شر) ۔ فصل آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ مشرکوں کے بچوں اور دیوانے انسانوں کو عذاب نہ ہوگا۔ (نہ عذاب شرک نہ عذاب معاصی) کیونکہ ان کو نہ کسی پیغمبر کی دعوت پہنچی نہ عقل کی (ماں باپ کا شرک ان پر اثر انداز نہ ہوگا) رفتار آیت اسی مطلب پر روشنی ڈال رہی ہے۔ لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرٰیسے یہی مستفاد ہو رہا ہے ‘ بعض احادیث میں بھی اسی طرح کا مضمون آیا ہے ‘ امام احمد نے خنساء بن معاویہ کے چچا کی روایت سے بیان کیا ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ جنت میں کون لوگ جائیں گے فرمایا نبی جنتی ہیں ‘ شہید جنتی ہیں اور نوزائیدہ بچے جنتی ہیں اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے جنتی ہیں (یعنی یہ لوگ بےحساب جنت میں جائیں گے ان کا جنت میں داخلہ بغیر عذاب کے قطعی ہے) ۔ بخاری نے حضرت سمرہ بن جندب کی روایت سے ایک طویل حدیث خواب بیان کی ہے جس کے اندر یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ایک پیر مرد۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے گرداگرد کچھ بچے بھی تھے رسول اللہ ﷺ : کا گزر ادھر سے ہوا اور آپ نے جبرئیل ( علیہ السلام) سے دریافت کیا جبرئیل نے بتایا یہ ابراہیم ہیں اور یہ بچے مسلمانوں کے اور مشرکوں کے ہیں ‘ صحابہ نے یہ بات سن کر عرض کیا یا رسول اللہ : ﷺ مشرکوں کے بچے بھی فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی۔ اسی وجہ سے بعض علماء کا قول ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔ (یعنی جنت میں تو رہیں گے لیکن مؤمنوں کے خدمتگار بن کر) کیونکہ ابو داؤد طیالسی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ : ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا نہ تو ان کی برائیاں تھیں کہ وہ دوزخیوں میں سے ہوجائیں نہ ان کی بھلائیاں تھیں کہ (اہل جنت میں ان کا شمار ہوجائے اور) ان کو نیکیوں کا ثواب دیا جائے پس وہ اہل جنت کے خادم ہوں گے۔ ابن جریر نے حضرت سمرہ کا بیان نقل کیا ہے ‘ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق دریافت کیا فرمایا وہ اہل جنت کے خادم ہوں گے۔ یہ ہی حدیث حضرت ابن مسعود سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ ایک شبہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ مشرکوں کے بچوں کا کوئی قطعی فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے مروی نہیں۔ حضور ﷺ نے یقینی طور پر نہیں فرمایا کہ مشرکوں کے بچے جنتی ہوں گے یا دوزخی۔ چناچہ صحیحین میں بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے ایسی ہی ایک حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی آئی ہے۔ ازالہ مشرکوں کے بچوں کی غیر یقینی حالت والی مذکورہ دونوں حدیثیں منسوخ ہیں آیت الفتح ان کی ناسخ ہیں جو لوگ کسی کے جنتی ہونے کی شہادت دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے قول کی تردید فرما دیتے تھے ‘ کیونکہ اللہ نے فرما دیا تھا (وَمَا اَدْرِی مَا یُفْعَل بِیْ وَلاَبِکُمْ ) (مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور میرے ساتھ کیا کیا جائے گا) اسی بناء پر حضرت عثمان بن مظعون کے جنتی ہونے کے قول کی بھی آپ نے تردید فرما دی تھی ‘ لیکن آیت فتح کے نزول سے آپ کو بڑی خوشی ہوئی اور اس کے بعد ایک جماعت کے لئے نام بنام آپ نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔ مسلم نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک انصاری کے بچے کے جنازہ میں شرکت کے لئے رسول اللہ ﷺ : کو بلایا گیا ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کے لئے تو خوشی ہی خوشی ہے وہ تو جنت کی چڑیا تھی کبھی کوئی گناہ نہیں کیا نہ گناہ کرنے کی عمر پائی۔ یا اس کے خلاف کچھ ہوگا فرمایا (سنو) عائشہ ؓ ! اس نے جنت کو پیدا کیا تو اس کے لئے کچھ اشخاص بھی ان کے باپوں کی پشت میں ہی پیدا کردیئے اور دوزخ کو پیدا کیا تو اس کے لئے کچھ لوگ ان کے باپوں کی پشت میں ہی پیدا کردیئے۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کے معاملے میں کوئی یقینی علم نہیں ہے۔ توقف ہی رکھنا چاہئے۔ باوجودیکہ ان کے جنتی ہونے پر اجماع سلف ہے امام احمد اور ابن ابی زید اور ابو یعلی وغیرہ نے فراء وغیرہ کے حوالے سے اجماع ہونا نقل کیا ہے اس کے علاوہ قرآن و احادیث کی صریح عبارتیں بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں کذا قال النووی والسیوطی۔ (لیکن یہ سب لاعلمی کا اظہار مسلمانوں کے بچوں کے سلسلہ میں بھی آیت فتح کے نزول سے پہلے تھا) ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور بزارنے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ امت جب تک تقدیر کی بابت (کوئی جھگڑا) اور بچوں کے (جنتی و دوزخی ہونے کے) سلسلہ میں کوئی گفتگو نہ کرے گی اس کا معاملہ ٹھیک رہے گا (کوئی فساد نہ ہوگا) ابن حبان کے نزدیک جن بچوں کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے ان سے مراد مشرکوں کے بچے ہیں۔ یہ حدیث بھی آیت فتح سے منسوخ ہے اور یہ ارشاد اس زمانہ کا ہے جب رسول اللہ ﷺ کو مشرکوں کے بچوں کے نتیجہ کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کے بچے دوزخ میں جائیں گے ابو یعلی نے حضرت براء بن عازب کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے مسلمانوں کے بچوں کے متعلق دریافت کیا گیا۔ فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہوں گے پھر مشرکوں کے بچوں کے متعلق دریافت کیا گیا تب بھی حضور ﷺ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہوں گے۔ ابو داؤد نے حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے ‘ ام المؤمنین نے فرمایا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مؤمنوں کی اولاد کا کیا ہوگا ‘ فرمایا وہ اپنے باپوں سے ہیں (یعنی انہیں کے ساتھ ہوں گے) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا بغیر عمل کے فرمایا اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ (زندہ رہتے اور جوان ہوتے تو) کیا کرتے میں نے عرض کیا مشرکوں کی اولاد کا کیا حکم ہے فرمایا وہ اپنے باپوں سے ہیں (یعنی دوزخی ہوں گے) میں نے عرض کیا بغیر عمل کے فرمایا ‘ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا کرتے۔ احمد نے بہت زیادہ ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق تذکرہ کیا ‘ فرمایا اگر تم چاہو تو دوزخ کے اندر میں تم کو ان کی جگہ بتادوں۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد المسند میں ایک مجہول منقطع سند کے ساتھ اور ابن ابی حاتم نے السنۃ میں حضرت علی ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے ان دونوں بچوں کے متعلق دریافت کیا جو دور اسلامی سے پہلے مرچکے تھے۔ فرمایا دونوں دوزخ میں ہیں (یہ بات سن کر حضرت خدیجہ ؓ کے چہرے پر کچھ افسردگی کے آثار پیدا ہوگئے) حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کے چہرہ پر آثار کراہت دیکھ کر فرمایا اگر تم کو ان کا مقام نظر آجائے تو خود ان سے نفرت کرنے لگو گی۔ حضرت خدیجہ ؓ نے عرض کیا اور جو آپ سے میری اولاد ہو (اس کا کیا حکم ہے) فرمایا مؤمن اور ان کے بچے جنت میں ہوں گے اور مشرک اور ان کے بچے دوزخ میں ہوں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍٍ اَلْحَقْنَابِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ ) ۔ ابو داؤد نے حضرت ابن مسعود ؓ : کی روایت سے اچھی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لڑکی کو) زندہ دفن کرنے والی اور زندہ درگور کی ہوئی (دونوں) دوزخ میں ہوں گی۔ ابو داؤد نے ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت سلمہ بن قیس اشجعی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت سلمہ نے فرمایا ‘ میں اور میرا بھائی رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مرگئی وہ مہمان نوازی اور کنبہ پروری کرتی تھی مگر اس کی ایک بہن تھی جو سن بلوغ کو نہیں پہنچی تھی ‘ ہماری ماں نے اپنی اس بہن کو زندہ زمین میں دفن کردیا ‘ فرمایا زندہ دفن کرنے والی اور زندہ درگور کی ہوئی (دونوں) دوزخی ہوں گی۔ ہاں اگر زندہ دفن کرنے والی نے اسلام پا لیا اور مسلمان ہوگئی (تو جنتی ہوجائے گی) ان تمام احادیث کا جواب یہ ہے کہ الوائدہ سے (حدیث میں) وائی مراد ہے اور مؤورہ سے مراد ہے زندہ درگور کی جانے والی لڑکی کی ماں یعنی جس کی لڑکی زندہ درگور کی گئی ہو (اور وہ اس پر راضی ہو) احادیث کا باہم تعارض دور کرنے کے لئے یہ تاویل ضروری ہے۔ رہیں وہ احادیث جو مشرکوں کے بچوں کے دوزخی ہونے کے سلسلے میں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے کوئی حدیث بھی اتنی قوی نہیں جتنی وہ احادیث قوی ہیں جن میں اولاد مشرکین کا جنت میں ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ پھر قرآن مجید کی آیات سے بھی ان کا ٹکراؤ ہو رہا ہے۔ اس لئے ناقابل قبول ہیں اور چونکہ یہ احادیث خبری شکل میں ہیں ‘ یعنی ان میں اولاد مشرکین کے دوزخی ہونے کی اطلاع دی گئی ہے اور نسخ احکام میں ہوتا ہے خبروں میں جاری نہیں ہوتا ‘ اس لئے ہم ان کو منسوخ نہیں کہتے بلکہ انتہائی ضعیف کہتے ہیں بایں معنی ان کو منسوخ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے ان کے لئے عذاب دوزخ تو مقرر کردیا ہے لیکن رسول اللہ کی شفاعت سے اس کو دور کر دے گا ‘ ابن ابی شیبہ کی حدیث اس مضمون پر دلالت کر رہی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت انس ؓ : کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اولاد انسانی میں سے جو لوگ لاہی (کھیلنے والے یا غافل) مرگئے ہوں ان کے متعلق میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے ‘ اللہ نے میرا سوال پورا کردیا۔ ابن عبدالبر نے کہا اس حدیث میں لاہی سے مراد بچے ہیں ان کے اعمال (قابل گرفت نہیں) محض لہو و لعب ہیں نہ عقل کے ساتھ ہوتے ہیں نہ عزم کے ساتھ۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ سلف سے اب تک مشرکوں کے بچوں کے جنتی دوزخی ہونے کے سلسلہ میں علماء کے اقوال مختلف رہے ہیں۔ کچھ علماء احادیث مندرجۂ بالا کی روشنی میں اطفال مشرکین کے دوزخی ہونے کے قائل ہیں۔ لیکن ہم لکھ چکے ہیں کہ احادیث مذکورہ ضعیف ہیں ‘ استدلال میں پیش کرنے کے قابل نہیں۔ کچھ علماء ان کو جنتی اور کچھ اہل جنت کے خادم قرار دیتے ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں قولوں میں تعارض نہیں ہے ‘ کیونکہ اہل جنت کے خادم بھی جنت میں ہی ہوں گے۔ محتاط ترین قول یہ ہے کہ اطفال مشرکین کا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے نہ ان کے جنتی ہونے کا قول۔ قول فیصل ہے نہ دوزخی ہونے کا۔ اس قول کی نسبت حماد ‘ ابن مبارک ‘ ابن راہویہ اور شافعی کی طرف کی گئی ہے اور نسفی نے امام ابو حنفیہ کا قول بھی یہی قرار دیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن جس طرح رسول اللہ ﷺ : کی بعثت سے پہلے کے لوگوں کی جانچ کی جائے گی ‘ اسی طرح اطفال مشرکین کا بھی امتحان لیا جائے گا۔ ابو یعلی اور بزار نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن چار (قسم کے) لوگوں کو پیشی میں لایا جائے گا۔ (1) بچہ (جو پیدا ہونے کے بعد جوان ہونے سے پہلے مرگیا) (2) دیوانہ۔ (3) زمانۂ فترت والے (یعنی حضرت عیسیٰ کے بعد جب صحیح عیسائیت ختم ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ : کی بعثت ابھی نہیں ہوئی اس درمیانی مدت کے لوگ) ۔ (4) شیخ فانی (یعنی پیر فرتوت) ان میں سے ہر ایک اپنا اپنا عذر پیش کرے گا ‘ اللہ آگ کے بالائی حصے سے فرمائے گا باہر نکل آ ‘ پھر فرمائے گا میں (دنیا میں) اپنے بندوں کے پاس انہیں میں سے کچھ لوگوں کو پیغمبر بنا کر بھیجتا رہا ہوں اور (آج) میں خود اپنی طرف سے تم کو پیغام دے رہا ہوں اس (آگ) میں داخل ہوجاؤ اس کے جواب میں وہ لوگ جن کے لئے اللہ کی طرف سے بدبختی لکھ دی گئی ہوگی کہیں گے اے رب کیا ہم اس آگ میں گھس جائیں ‘ اسی سے تو ہم بھاگ رہے ہیں ‘ جو ازلی خوش نصیب ہوں گے وہ فوراً جا کر آگ میں گھس پڑیں گے ‘ اللہ نافرمانوں سے فرمائے گا (جب تم نے آج میرا حکم نہیں مانا تو (دنیا میں) تم میرے پیغمبروں کی بہت زیادہ تکذیب اور نافرمانی کرتے آخر آگ میں داخل ہونے والوں کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور انکار کرنے والوں کو آگ میں بھیج دیا جائے گا۔ بزار اور محمد بن یحییٰ نے حضرت ابو سعید خدری (رح) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (تین قسم کے لوگ اپنا عذر پیش کریں گے) فترت کے زمانہ میں جو شخص (کفر پر) مرا ہوگا وہ عذر پیش کرے گا اور دیوانہ عذر پیش کرے گا اور بچہ (جو بچپن میں مرگیا ہوگا وہ) عذر پیش کرے گا (یہ سب ہلاک ہونے والے اپنی اپنی معذرت کریں گے) ایام فترت میں ہلاک ہونے والا کہے گا ‘ اے میرے رب میرے پاس کوئی کتاب ہی نہیں پہنچی دیوانہ کہے گا تو نے مجھے سمجھ ہی نہیں دی کہ میں بھلائی سمجھتا بچہ کہے گا ‘ میں نے عقل (کی عمر یعنی سن بلوغ) کو ہی نہیں پایا ان کی معذرتوں کے بعد ایک آگ کا حصہ (یعنی دوزخ کا ابتدائی حصہ) سامنے آجائے گا اور اللہ فرمائے گا اس میں داخل ہوجاؤ فوراً وہ لوگ جن کے متعلق اللہ کو معلوم تھا کہ اگر یہ عمل کا زمانہ پاتے تو سعید ہوجاتے اس آگ میں گھس جائیں گے اور جن لوگوں کے متعلق اللہ کو معلوم تھا کہ اگر یہ عمل کے زمانے کو بھی پالیتے تب بھی بدنصیب رہتے آگ میں داخل ہونے سے رک جائیں گے اللہ فرمائے گا (آج جب) تم نے میری نافرمانی کی تو میرے پیغمبر (دنیا میں) اگر تمہارے پاس پہنچ جاتے تو کس طرح نافرمانی نہ کرتے۔ طبرانی اور ابو نعیم نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن دیوانہ کو اور فترت کے زمانہ میں کفر پر مرنے والے کو اور بچپن کی عمر میں ہلاک ہونے والے کو پیشی میں لایاجائے گا ‘ دیوانہ کہے گا اے میرے رب اگر تو صحیح سمجھ دیتا تو یہ دوسرے عقلمند مجھ سے زیادہ خوش نصیب نہ ہوتے اور دوسرے دونوں بھی ایسی ہی بات کہیں گے اللہ فرمائے گا اچھا اب اگر میں تم کو کوئی حکم دوں تو مانو گے۔ سب کہیں گے جی ہاں اللہ فرمائے گا جاؤ دوزخ میں گھس جاؤ ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر وہ آگ میں گھس جاتے تو آگ سے کوئی دکھ ان کو نہ پہنچتا) پھر اللہ (دوزخ کے) کچھ حصے ان کے سامنے لے آئے گا ‘ وہ خیال کریں گے یہ تو ہر چیز سے زیادہ ہلاکت انگیز ہے اس لئے فوراً ہی واپس لوٹ پڑیں گے ‘ اللہ دوبارہ حکم دے گا ‘ پھر بھی وہ لوٹ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم کو پیدا کرنے سے پہلے ہی مجھے معلوم تھا کہ تم (اگر عمل پر قادر ہوتے تو) کیا کرتے۔ مندرجۂ بالا احادیث کی بناء پر جن لوگوں نے اطفال مشرکین کے متعلق توقف کا مسلک اختیار کیا ہے (اور صراحت کی ہے کہ قیامت کے دن اللہ ان کا فیصلہ کرے گا اور امتحان کے بعد ان کو دوزخ میں بھیج دے گا) یہ دین کی کھلی ہوئی صراحتوں کے خلاف ہے ‘ امام احمد اور ابو داؤد اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت علی ؓ اور عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین (قسم کے لوگوں) سے قلم اٹھا لیا گیا ہے (یعنی وہ شرعی احکام کے مکلف ہی نہیں ہیں) دیوانہ جب تک اچھا نہ ہوجائے ‘ سوتا ہوا آدمی جب تک بیدار نہ ہوجائے اور بچہ جب تک بڑا (یعنی بالغ) نہ ہوجائے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ اگر کسی نے گناہ کا ارادہ کیا تو اس وقت تک اس سے مواخذہ نہ ہوگا جب تک کہ وہ گناہ عملی شکل میں نہ کرلے ‘ جب یہ بات ہے تو جس نے گناہ کا ارادہ ہی نہ کیا بلکہ گناہ کو سمجھنے کی اس میں صلاحیت ہی نہ ہو اس کو کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اَکْتََسبَتْ ۔ وَاَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَان الاَّ مَا سَعٰی۔ تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ عقل و بلوغ پر تمام اوامرو نواہی کی بناء ہے۔ احادیث مذکورہ میں جو مولود و مجنون کے الفاظ بھی آئے ہیں ‘ شاید یہ راویوں کے وہم کا نتیجہ ہے یا یوں کہا جائے گا کہ بچہ اور دیوانہ تو قیامت کے دن اللہ کے حکم کی تعمیل میں آگ کے اندر گھس جائیں گے۔ زمانۂ فترت کے مشرکوں کی حالت اس کے خلاف ہوگی (وہ قیامت کے دن بھی اللہ کے حکم کی تعمیل نہیں کریں گے) سیوطی نے لکھا ہے اطفال مشرکین کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان برزخ میں ان کو رکھا جائے گا (نہ وہ دوزخی ہوں گے نہ جنتی) بعض نے کہا ان کو خاک کردیا جائے گا۔ مگر اس کی کوئی دلیل نہیں۔ اولاد مسلمین کے متعلق اجماع امت ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے ان کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں۔
Top