Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اُتارا ہے
ۘوَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا : اور قرآن میں جا بجا ہم نے فصل رکھا تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا۔ فَرَقْنَہُ یعنی ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے متفرق طور پر اتارا پورا قرآن بیس برس میں اترا 1 ؂ [1 ؂ معلوم نہیں حضرت مفسر (رح) کو بیس سال کی روایت کہاں سے پہنچی تاریخی حقیقت اس کے خلاف ہے۔ چالیس سال کی عمر میں بعثت ہوئی اور نزول قرآن کا آغاز ہوا اور 63 یا 64 سال کی عمر میں وفات ہوئی اور قرآن کا نزول ختم ہوا ‘ اس حساب سے 23 سال یا 24 سال میں پورا قرآن اترا۔ مترجم۔] یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کو ہم نے تفصیل دار اور کھول کر بیان کیا ہے۔ حسن نے کہا فرقنا کا یہ مطلب ہے کہ ہم نے اس کے اندر حق کو باطل سے الگ کردیا ‘ حق و باطل میں امتیاز کردیا۔ مکث : مہلت۔ قرآن کو وقفہ وقفہ سے تھوڑا تھوڑا اتارنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو سمجھنے اور یاد کرنے میں آسانی ہو۔
Top