Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
تو اس نے چاہا کہ ان کو سر زمین (مصر) سے نکال دے تو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو ڈبو دیا
فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ : پھر اس نے چاہا کہ اس سرزمین سے بنی اسرائیل کا قدم اکھاڑ دے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ فرعون حضرت موسیٰ : ( علیہ السلام) کو برحق جانتا تھا ‘ لیکن عناد کی وجہ سے انکار کرتا تھا۔ اللہ نے فرمایا ہے (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ) انہوں نے معجزات کا انکار کیا مگر دل سے وہ یقین رکھتے تھے۔ بصَائربصیرت کی جمع ہے یعنی یہ آیات و معجزات میری سچائی کو تیرے سامنے ظاہر کر رہے ہیں مگر تو عناداً انکار کر رہا ہے۔ مَثْبُوْرًا کا ترجمہ حضرت ابن عباس ؓ نے ملعون کیا ہے اور مجاہد نے ہلاک شدہ اور قتادہ نے ہلاک کردہ۔ فراء نے کہا عرب کہتے ہیں مَا ثَبَرَکَ عَنْ ہٰذَا اس سے تجھے کس چیز نے روک دیا۔ اس صورت میں مثبور کا ترجمہ ہوا ایسا شخص جو سرشتی شریر ہو جو فطری طور پر خیر سے برگشتہ ہو۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کے ظن کا مقابلہ اپنے ظن سے کیا فرعون کا ظن غلط تھا اولہ قطعیہ کے خلاف تھا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ظن ایسی علامات پر مبنی تھا جو مفید یقین تھیں۔ اَنْ یَّسْتَفِزَّہُمْ ان کو اکھاڑ دے موسیٰ ( علیہ السلام) کو اور ان کی قوم کو نکال دے۔ الارْضَ سے مراد ہے زمین مصر۔ یا تمام روئے زمین فرعون چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کو قتل کر کے روئے زمین سے ان کو نکال دے۔ فَاَغْرَقْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ جَمِيْعًا : پس ہم نے اس کو جو اس کے ساتھی تھے سب کو ڈبو دیا ‘ یعنی مصر سے ہم نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی جڑ اکھاڑ دی۔
Top