Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 44
لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ١ؕ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۠   ۧ
لَهَا : اس کے لیے سَبْعَةُ : سات اَبْوَابٍ : دروازے لِكُلِّ بَابٍ : ہر دروازہ کے لیے مِّنْهُمْ : ان سے جُزْءٌ : ایک حصہ مَّقْسُوْمٌ : تقسیم شدہ
اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر ایک دروازے کے لیے ان میں سے جماعتیں تقسیم کردی گئی ہیں
لھا سبعۃ ابواب اس (جہنم) کے سات دروازے ہیں۔ ہناد ‘ ابن مبارک اور امام احمد نے الزہد میں اور ابن جریر و ابن ابی الدنیا نے صفت النار (دوزخ کی حالت کا بیان) میں بیان کیا ہے کہ حضرت علی نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے اوپر اور انگلیوں کو الگ الگ کر کے فرمایا : دوزخ کے دروازے اسی طرح ہوں گے ‘ یعنی ہر دروازہ کے اوپر دروازہ ہوگا (اس طرح دوزخ کی سات منزلیں اور درجات ہوں گے ( اوّل پہلی منزل بھر دی جائے گی ‘ پھر دوسری ‘ پھر تیسری ‘ پھر چوتھی ‘ پھر پانچویں ‘ پھر چھٹی ‘ پھر ساتویں۔ بغوی نے حضرت علی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اللہ نے جنت کو پھیلاؤ میں رکھا ہے (یعنی جنت کے اوپر جنت نہیں ہے) اور دوزخ کو ایک کو دوسرے کے اوپر بنایا ہے۔ ابن جریر اور ابن ابی الدنیا نے صفت النار میں اسی آیت کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ اوّل دروازہ (یعنی طبقہ) جہنم ہے ‘ پھر نطی ‘ پھر حطمہ ‘ پھر سعیر ‘ پھر سقر ‘ پھر جحیم ‘ پھر ہاویہ۔ لکل باب منھم جزء مقسوم ہر طبقے کیلئے گمراہوں کا ایک حصہ بانٹا ہوا ہوگا۔ یعنی ہر درجہ میں گمراہوں کی ایک مقررہ جماعت ہوگی جو اس درجہ کے اندر رہے گی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ضحاک نے کہا : پہلے درجہ میں وہ اہل توحید ہوں گے جن کو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور گناہوں کے بقدر وہ دوزخ میں رہیں گے ‘ پھر نکال لئے جائیں گے۔ دوسرے درجہ میں نصاریٰ ‘ تیسرے میں یہودی ‘ چوتھے میں صابی ‘ پانچویں میں مجوسی ‘ چھٹے میں مشرک اور ساتویں میں منافق ہوں گے (یعنی دور مسیحی ختم ہونے کے بعد جو نصاریٰ عیسائیت پر قائم رہے اور کسی پیغمبر کا انکار کیا ‘ یا بعد کو آنے والے پیغمبر کی شریعت کا انکار کیا۔ اسی طرح شریعت موسوی کا زمانہ ختم ہونے کے بعد جو یہودی ‘ یہودیت پر قائم رہے اور حضرت عیسیٰ ‘ یا رسول اللہ ﷺ ‘ یا کسی اور پیغمبر کا انہوں نے انکار کیا۔ صابی جو اپنے کو موحد کہتے ہیں اور کسی پیغمبر کی شریعت کو نہیں مانتے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صابی صرف حضرت نوح کا متبع اپنے کو قرار دیتے ہیں۔ مجوسی آتش پرست اور ستارہ پرست) اللہ نے منافقوں کے متعلق فرمایا : اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّار منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم کے سات دروازے (یعنی درجے) ہیں۔ ان میں سے ایک ان لوگوں کیلئے جنہوں نے میری امت پر تلوار سونتی۔ یا فرمایا : محمد کی امت پر تلوار کھینچی۔ قرطبی نے کہا : پہلا طبقہ جہنم ہے ‘ یہ تمام دوسرے درجات سے سہل ترین عذاب کا درجہ ہے ‘ اس امت کے گناہگاروں کیلئے مخصوص ہے۔ جہنم کو جہنم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آگ مردوں اور عورتوں کے چہرے بگاڑ دے گی اور ان کے گوشت کو کھالے گی۔ ہاویہ کا درجہ سب سے نچلا ہے ‘ یہ سب سے گہرا ہے۔ بزار نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوزخ کا ایک ایسا درجہ ہے جس میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے جنہوں نے اللہ کا غضب لے کر اپنے غصہ کو تسکین دی ہوگی ( اللہ کے غضب کی پرواہ نہیں کی اور اپنے غصہ کی آگ بجھائی) ۔ ترمذی نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم کے سات دروازے ہیں : سب سے زیادہ غم آگیں ‘ کرب آفریں اور حزن آلود اور متعفن ترین دروازہ زنا کاروں کیلئے ہوگا جنہوں نے جانتے ہوئے زنا کا ارتکاب کیا ہوگا۔ بیہقی نے خلیل بن مرہ کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بغیر تبارک الّذی اور حٰمّ السجدہ پڑھے نہیں سوتے تھے اور فرماتے تھے۔ حٰمّوالی سورتیں سات ہیں اور دوزخ کے دروازے بھی سات طبقات ہیں : جہنم ‘ حطمہ ‘ لطٰی ‘ سقر ‘ سعیر ‘ ہاویہ ‘ جحیم۔ قیامت کے دن ان (حٰمّوالی سورتوں) میں سے حٰمّ السجدہ آکر ان طبقات کے دروازہ پر کھڑی ہوجائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ ! جو مجھ پر ایمان رکھتا اور مجھے پڑھتا تھا ‘ وہ اس میں داخل نہ ہو۔ ثعلبی کی روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسی نے جب آیت وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ سنی تو بدحواس ہو کر بھاگے اور اسی حالت میں تین روز بھاگتے رہے ‘ آخر (پکڑ کر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔ حضور ﷺ نے (فرار کا سبب) دریافت فرمایا۔ حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آیت وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ نازل ہوئی تو قسم ہے اس کی جس نے آپ کو سچ کا حامل بنا کر بھیجا ہے ‘ میرا دل اس سے پارہ پارہ ہوگیا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top