Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے
ربما یود الذین کفروا لو کانوا مسلمین کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کیا خوب ہوتا اگر وہ (یعنی ہم دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ لفظ رُبَّ اظہار قلت کیلئے آتا ہے لیکن اس جگہ مجازاً اظہار کثرت کیلئے آیا ہے۔ تقلیل و تکثیر میں علاقۂ تضاد ہے یا اس بات پر تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ اگر ان کو اسلام سے کچھ بھی مودت ہوتی ‘ خواہ ایک ہی بار ہوتی تو ضرور جلد از جلد اسلام کے دائرے میں آجاتے۔ پس جب ان کو اسلام کی مودت بہت زیادہ ہے تو پھر کفر پر قائم رہنا تعجب انگیز ہے۔ یا تکثیر سے اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام کی مودت ان کے دلوں میں اتنی زیادہ ہوگئی ہے جو ناقابل بیان ہے۔ پس قلت کا لفظ ہی اس کیلئے کافی ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک رُبَّ اس جگہ اظہار قلت کیلئے ہی ہے کیونکہ قیامت کی ہولناکیاں ان کو دہشت زدہ بنائے ہوئے ہوں گی۔ اگر کسی وقت کچھ ہوش ہوگا تو مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔ مَا ربما میں کافّہ ہے ‘ اسلئے فعل پر داخل ہونا جائز ہے (ورنہ رُبَّ حرف جر ہے جو صرف اسم پر داخل ہوتا ہے) مناسب تو یہ تھا کہ اس کے بعد فعل ماضی آتا لیکن اللہ کے بیان میں آئندہ ہونے والا واقعہ بھی گزشتہ کی طرح یقینی ہوتا ہے ‘ اسلئے ماضی کی جگہ مضارع کا استعمال بھی ماضی ہی کی طرح ہے۔ ابن جریر ‘ ابن مبارک اور بیہقی نے حضرت ابن عباس اور حضرت انس کے متعلق بیان کیا کہ ان دو بزرگوں نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا : اللہ جب دوزخ کے اندر مشرکوں اور گناہگار مسلمانوں کو جمع کرے گا تو مشرک ‘ مسلمانوں سے کہیں گے : تم کو بھی تمہارے اعمال کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اس پر اللہ ناراض ہو کر مسلمانوں کو دوزخ سے باہر نکال دے گا (رہا کر دے گا ‘ بخش دے گا) ہناد ‘ سعید بن منصور اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ اللہ شفاعت قبول فرما کر مسلسل جنت میں داخل فرمائے گا اور شفاعت کے بعد رحم فرمائے گا۔ بالآخر فرمائے گا : جو بھی مسلمان ہو ‘ جنت میں چلا جائے (اس وقت کافر تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے) آیت رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ کا یہی مطلب ہے۔ طبرانی نے الاوسط میں صحیح سند کے ساتھ حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگوں کو گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا اور وہ دوزخ میں داخل ہوجائیں گے اور جتنی مدت تک اللہ چاہے گا ‘ وہاں رہیں گے ‘ پھر (دوزخ کے اندر) مشرک ان کو طعن دیں گے کہ تم نے جو تصدیق کی تھی (اور ایمان لائے تھے) اس سے تم کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس پر اللہ ہر موحد کو دوزخ سے نکال لے گا ‘ کسی موحد کو آگ کے اندر نہیں چھوڑے گا۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آیت رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ تلاوت فرمائی۔ طبرانی ‘ ابن عاصم اور بیہقی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دوزخی ‘ دوزخ میں جمع ہوجائیں گے اور حسب مشیّت خدا ان کے ساتھ کچھ اہل قبلہ بھی ہوں گے تو کافر مسلمانوں سے کہیں گے : کیا تم مسلمان نہ تھے ؟ مسلمان کہیں گے : ” تھے ‘ کیوں نہیں ؟ “ کافر کہیں گے : تو اسلام سے تم کو کیا فائدہ ہوا ؟ تم بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں آگئے۔ مسلمان کہیں گے : ہمارے کچھ گناہ تھے جن کی وجہ سے اللہ نے ہم کو پکڑ لیا۔ یہ گفتگو اللہ سنے گا تو حکم دے گا : اہل قبلہ میں سے جو بھی دوزخ کے اندر ہو ‘ اس کو نکال لیا جائے۔ چناچہ سب مسلمان نکال لئے جائیں گے۔ دوزخی کافر جب یہ بات دیکھیں گے تو کہیں گے : کاش ہم بھی مسلمان ہوتے تو ہم کو بھی ان (مسلمانوں) کی طرح نکال لیا جاتا۔ پھر حضور ﷺ نے آیت رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ تلاوت فرمائی۔ بغوی کی روایت میں اس حدیث میں اتنا زائد آیا ہے کہ اللہ ہر اہل قبلہ کے نکالنے کا حکم دے گا اور سب کو نکال لیا جائے گا۔ اس وقت کافر تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ طبرانی کا بیان ہے کہ حضرت ابو سعید خدری سے دریافت کیا گیا : آپ نے کیا اس آیت کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو کچھ فرماتے سنا ہے ؟ فرمایا : ہاں ‘ میں سنا کہ حضور ﷺ فرما رہے تھے : انتقام لینے کے بعد اللہ دوزخ سے اپنی مشیّت کے موافق مؤمنوں کو نکال لے گا (لیکن شروع میں) جب مشرکوں کے ساتھ ان مسلمانوں کو دوزخ کے اندر اللہ داخل فرما دے گا تو مشرک کہیں گے : تم تو دنیا میں دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اللہ کے دوست ہیں ‘ پھر آج ہمارے ساتھ دوزخ میں کیوں ہو ؟ یہ بات سماعت فرمانے کے بعد اللہ شفاعت کی اجازت دے دے گا۔ فوراً فرشتے اور انبیاء اور مؤمن شفاعت کریں گے یہاں تک کہ ان گناہگار مسلمانوں کو (دوزخ سے) بحکم خدا نکال لیا جائے گا۔ مشرک یہ بات دیکھ کر کہیں گے : کاش ہم بھی تمہاری طرح ہوتے اور تمہاری طرح ہماری بھی شفاعت ہوجاتی۔ ان (رہا شدہ) مسلمانوں کے چہرے چونکہ سیاہ ہوں گے ‘ اسلئے (مسلمان) ان کو جہنمی کہیں گے ‘ ان کا نام جہنمی ہوجائے گا۔ لیکن وہ اللہ سے دعا کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم سے یہ نام الگ کر دے۔ حکم ہوگا : نہر حیات میں غسل کریں گے۔ غسل کے بعد ان کے چہرے گورے ‘ چمکدار ( ہوجائیں گے اور) یہ نام (یا خطاب) ان کا نہیں رہے گا۔ ابن جریر نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے لکھا ہے کہ یہ (کافروں کی تمنا) اس وقت ہوگی جب گناہگار مسلمانوں کو دوزخ سے نکالا جا رہا ہوگا۔ ہناد نے اس آیت کے ذیل میں مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ اس وقت لا الٰہ الا اللہ کا ہر قائل (یعنی ہر مسلمان) دوزخ سے نکل آئے گا۔
Top