Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم ان کو بمقدار مناسب اُتارتے رہتے ہیں
وان من شیء الا عندنا اور جتنی چیزیں ہیں ہمارے پاس ‘ سب کے خزانے (بھرے پڑے ہیں) ۔ یعنی ہماری قدرت ایسی ہمہ گیر ہے کہ جتنی مخلوق ہم نے پیدا کی ہے اور جو جو چیز بنائی ہے ‘ اس سے کتنے ہی گنا زائد ہم پیدا کرسکتے ہیں۔ خزانے موجود ہونے سے مراد ہے : قدرت کے اتھاہ ہونے کا بیان۔ یا اللہ نے اپنے مقدورات کو خزانوں سے تشبیہ دی جو جمع شدہ اور موجود ہوتے ہیں ‘ ان میں سے ہر وقت جو چاہو نکال سکتے ہو۔ اللہ کے مقدورات بھی ایسے ہی ہیں۔ اللہ جب چاہے اور جتنا حصہ چاہے ‘ اپنے مقدورات میں سے عالم ظہور میں لاسکتا ہے اور پیدا کرسکتا ہے اور آیت ذیل میں جو اتارنے کا لفظ استعمال کیا ہے ‘ اس سے مراد پیدا کردینا اور عالم خارجی میں بالفعل لے آنا ہے۔ وما ننزلہ الا بقدر اور ہم اس کو (یعنی ہر چیز کو) ایک معین مقدار سے ہی اتارتے ہیں۔ قَدَر یعنی جس کو پیدا کرنا ازل میں مقدر ہوچکا ہے اور جس کی مقدار اللہ کو معلوم ہے۔ (مفسر (رح) نے فرمایا) میں کہتا ہوں : ممکن ہے کہ خزائن سے مراد اعیان ثابتہ ہوں (یعنی وہ حقائق امکانیہ جو اللہ کے علم میں ثابت ہوں۔ مترجم) اور اتارنے سے مراد ہو ان اعیان حقیقیہ کو وجود ظلی عطا کرنا (یعنی خارج میں موجود کردینا۔ خارجی وجود کو اہل تصوف وجود ظلی کہتے ہیں ‘ یعنی وجود ظلی پرتو ہے اور حقائق امکانیہ جو علم خداوندی میں ثابت ہیں ‘ وہ اصل ہیں۔ وجود خارجی انہی کا پرتو ہے۔ مترجم) بغوی نے لکھا ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : خشکی اور سمندر میں اللہ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ‘ سب کی تمثال (وجود مثالی یعنی حقیقت امکانیہ مترجم عرش میں ہے اور آیت وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ الاَّ عِنْدَنَا خَزآاءِنُہٗ کی یہی تفسیر ہے۔ میں کہتا ہوں : شاید امام کی مراد عرش سے عالم مثال ہے جس طرح انسان کا محل خیال دماغ ہے (اور وجود خارجی وجود خیالی کے ظہور خارجی کا نام ہے) اسی طرح عالم کبیر (کے ظہور خارجی) کا محل عالم مثال ہے اور محل تمثال عرش ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ خزائن سے مراد بارش ہے۔ بارش ہر چیز کا خزانہ ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیِّ ۔ روایت میں آیا ہے کہ آسمان سے جو قطرہ اترتا ہے ‘ اس کے ساتھ ایک فرشتہ ضرور ہوتا ہے۔ فرشتہ اس بوند کو اس جگہ تک ضرور پہنچاتا ہے جہاں پہنچانے کا حکم ہوتا ہے۔
Top