Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 18
اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ
اِلَّا : مگر مَنِ : جو اسْتَرَقَ : چوری کرے السَّمْعَ : سننا فَاَتْبَعَهٗ : تو اس کا پیچھا کرتا ہے شِهَابٌ : شعلہ مُّبِيْنٌ : چمکتا ہوا
ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہے تو چمکتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لپکتا ہے
الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین ہاں جو چوری سے سن پاتا ہے تو اس کے پیچھے روشن شعلۂ آتشیں آپڑتا ہے۔ شِھَاب آتشیں شعلہ جو ستاروں سے نکلتا۔ بغوی نے چوری سے سننے اور پیچھے سے شعلۂ آتشیں پڑنے کی یہ تفصیل بتائی ہے کہ شیاطین نیچے سے آسمان دنیا تک ایک کے اوپر ایک سوار ہو کر (گویا ( سیڑھیاں بنا لیتے ہیں اور چوری چھپے فرشتوں کی کچھ باتیں وہ سن لیتے ہیں۔ فرشتے (مطلع ہو کر) ان پر آتشیں شعلے مارتے ہیں ‘ کوئی انگارہ خطا نہیں جاتا۔ انگارہ پڑنے سے کوئی تو مرجاتا ہے ‘ کسی کا چہرہ ‘ یا پہلو ‘ یا ہاتھ ‘ یا کوئی اور حصہ حسب مشیّت الٰہی جل جاتا ہے۔ کوئی بدحواس اور پاگل ہوجاتا ہے اور بھوت بن جاتا ہے جو زمین پر آکر جنگلوں میں مسافروں کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آسمان میں اللہ کسی کام کا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اطاعت اور احترام کے زیر اثر فرشتے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے پتھر کی چٹان پر کسی زنجیر کے لگنے سے ہوتی ہے۔ جب دلوں سے خوف دور ہوجاتا ہے تو (آپس میں) پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے فرشتے جواب دیتے ہیں : جو کچھ فرمایا بلاشبہ حق ہے ‘ وہی (سب سے) بزرگ وبالا ہے۔ چوری سے سننے والے ایک کے اوپر ایک لگے ہوتے ہیں۔ چناچہ (سب سے اوپر) چوری سے سننے ولا کوئی بات سن پاتا ہے اور اپنے نیچے والے کو بتادیتا ہے اور نیچے والا اپنے سے نیچے والے کو بتادیتا ہے ‘ اس طرح سب سے نیچے والا جادوگر یا کاہن کی زبان پر وہ بات لے آتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیچے والے تک پہنچانے سے پہلے اوپر والے پر شعلۂ آتشیں آپڑتا ہے اور کبھی آتشیں شعلہ پہنچنے سے پہلے وہ نیچے والے کو بتا چکتا ہے۔ ساحر یا کاہن (اس ایک بات میں) سو جھوٹ ملا کر بیان کرتا ہے (جب وہ ایک بات جو کاہن کی زبان سے لوگ سنتے ہیں اور وہ دافع ہوجاتی ہے تو) کہا جاتا ہے : کیا کاہن نے ہم سے ایسی ایسی بات پہلے ہی نہ کہہ دی تھی ؟ چناچہ اس ایک آسمانی بات کی وجہ سے کاہن کی (دوسری خرافات کی بھی) تصدیق کی جاتی ہے۔ رواہ البخاری بغوی نے اپنی سند سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ فرشتے بادل میں اترتے ہیں اور وہاں اس بات کا تذکرہ ہوتا ہے جس کا فیصلہ آسمان پر ہوچکا ہوتا ہے۔ کوئی شیطان اس کو چوری سے سن پاتا ہے اور جا کر کاہن کے دل میں ڈال دیتا ہے ‘ کاہن اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا کر بیان کردیتے ہیں۔ یہ روایت بخاری کی بھی ہے اور بغوی کی بھی ‘ سند میں فرق ہے۔
Top