Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اُس کو سجا دیا
ولقد جعلنا فی السمآء بروجا اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے بنائے ہیں۔ بُرج بڑا ستارہ۔ تَبَرُّج سے یہ لفظ ماخوذ ہے ‘ تَبَرُّجکا معنی ہے : ظاہر ہونا۔ تَبَرَّجَتِ الْمَرْءَ ۃُ عورت نمودار ہوگئی۔ عطیہ نے کہا : بُرُوْج آسمان کے اندر بڑے بڑے محلات ہیں۔ اس آیت میں بُرُوْج سے مراد وہ معنی نہیں ہے جو اہل ہیئت کی اصطلاح میں آتا ہے۔ اہل ہیئت کے اصطلاحی معنی کا وجود مندرجہ ذیل امور پر موقوف ہے۔ تمام آسمان باہم جڑے ہوئے اور ایک دوسرے پر حاوی ہوں کہ نویں آسمان کے گھومنے سے سب اسی طرف گھومنے پر مجبور ہوں جس طرف نویں آسمان کی حرکت ہو ‘ پھر نویں آسمان کی حرکت کیلئے ایک منطقہ اور دو قطب ہوں ‘ پھر آٹھویں آسمان ‘ جس کو فلک ثوابت کہا جاتا ہے ‘ کیلئے بھی ایک منطقہ اور دوسرے دو قطب ہوں اور سورج آٹھویں آسمان کے منطقہ پر قائم ہو اور دونوں منطقوں کا باہم ایک تقاطع بھی ہو اور چاروں قطبوں کے درمیان ایک خط بھی کھینچا جائے جس سے چار قوس پیدا ہوجائیں اور ہر قوم میں تین برج ہوں۔ اس تمام خرافات کا شریعت انکار کرتی ہے۔ شریعت سے آسمانوں کی حرکت ثابت نہیں بلکہ ستاروں کی حرکت ثابت ہوتی ہے اور ہر آسمان کا دوسرے آسمان سے فاصلہ پانچ سو برس کی راہ کے بقدر بتایا گیا ہے (ایک آسمان کا دوسرے آسمان سے چسپاں ہونے کا انکار اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے) اور شریعت کے نزدیک آسمانوں کی تعداد سات ہے ‘ اس سے زائد نہیں۔ وزینھا للنظرین اور ہم نے (روشنی کی وجہ سے) ان برجوں کو یا (چاند ‘ سورج اور ستاروں کی وجہ سے) آسمان کو زینت عطا کی ہے۔
Top