Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہ وہی تو ہے جس نے تم (انسانوں) کو پیدا کیا ایک ہی شخص سے، پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی اور ایک جگہ چندے رہنے کی، بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کر بیان کردیئے ہیں ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں،144 ۔
144 ۔ دلائل اپنی توحید اور صنعت اور حکمت کے۔ (آیت) ” انشاکم “۔ خطاب عام نسل انسانی سے ہے۔ (آیت) ” من نفس واحدۃ “۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے۔ یہاں وحدت انسانی کو بہ طور ایک حقیقت کے بیان کیا ہے اور اس مسئلہ کو صاف کردیا کہ سب نوع انسانی کا مورث اعلی ایک ہی ہوا ہے کئی نہیں ہوئے ہیں۔ جیسا کہ بعض ناقصوں فلسفیوں اور بعض باطل مذہب والوں نے خیال کیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی، اس ایک اصل کو مان لینے سے انسانیت جو آج مہذہب وغیر مہذب، کالی اور گوری، صاحب اور نیٹو، برہمن اور شودر، مشرقی اور مغربی اور خدا جانے کتنی اور ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پھر ایک بار بنی آدم کی وحدت میں تبدیل ہوسکتی ہے اور دنیا کے کتنے جھگڑے اور خرخشے مٹ سکتے ہیں۔ (آیت) ” فمستقرومستودع “۔ دونوں میں فرق یہ کیا گیا ہے کہ مستودع بہت سریع الزوال کو کہتے ہیں اور مستقر اتنا زودفنا نہیں۔ الفرق بین المستقر والمستودع۔ اذا المستقر اقرب الثبات من المستودع (کبیر) مستقر کی کئی تفسیریں منقول ہیں۔ لیکن اکثر نے اس سے مراد رحم مادرلی ہے۔ اکثر تابعین بلکہ صحابہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ و اکثر اھل التفسیر یقولون المستقر ما کان فی الرحم (قرطبی) عن ابن مسعود وابن عباس وابی عبدالرحمن السلمی وقیس بن ابی حازم و مجاھد وعطاء وابراھیم النخعی والضحاک وقتادہ والسدی وعطاء الخراسانی وغیرھم ای فی الارحام (ابن کثیر) (آیت) ” مستودع “۔ کی بھی کئی تفسیریں منقول ہیں۔ لیکن اکثر نے مراد پشت پدر لی ہے ادھر مستودع کے سلسلہ میں جن تابعین و صحابہ کے نام درج ہوئے انہی نے مستودع کی شرح یہی کی ہے المستودع ما کان فی الصلب رواہ سعید بن جبیر عن ابن عباس وقالہ النخعی (قرطبی) قالوا اواکثرھم ای فی الاصلاب (ابن کثیر) (آیت) ” لقوم یفقھون “۔ ابھی اوپر کی آیت میں لقوم یعلمون آچکا ہے۔ اہل تحقیق نے کہا ہے کہ اس آیت میں دلالت واضح وصریح تھی اس لئے یعلمون ثم یفقھون ھنا لان الدلالۃ ثم اظھر وھنا ادق (مدارک)
Top