Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 96
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ١ۚ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ
فَالِقُ : چیر کر (چاک کر کے) نکالنے والا الْاِصْبَاحِ : صبح وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا الَّيْلَ : رات سَكَنًا : سکون وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند حُسْبَانًا : حساب ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : اندازہ الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : علم والا
وہ صبح کا برآمد کرنے والا ہے اور اسی نے رات کو راحت کی چیز بنائی اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے یہ ٹھہرایا ہوا ہے، بڑے غلبہ والے کا، بڑے علم والا کا،142 ۔
142 ۔ یہ سارا عظیم الشان کارخانہ حیات، یہ نظام ارضی ونظام فلکی یوں ہی اٹکل پچو نہیں چل رہا ہے اس کے قانون کے مطابق اور اس کے ضابطہ کے ماتحت چل رہا ہے۔ جو (آیت) ” العزیز “۔ ہے۔ ہر غالب پر غالب، ہر قادر پر قادر، جس کی راہ ہر رکاوٹ سے خالی ہے اور جو ساتھ ہی العلیم بھی ہے۔ جس کی ہر جنبش تکوینی وتخلیقی بےانتہا حکمتوں اور مصلحتوں سے لبریز رہتی ہے۔ اور جو ہر علم و حکمت کا مبدا بھی ہے اور منتہی بھی، والعزیز اشارۃ الی کمال قدرتہ والعلیم اشارۃ الی کمال علمہ (کبیر) (آیت) ” فالق الاصباح “۔ وہ پردۂ شب سے صبح کا برآمد کرنے والا ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ ذلکم اللہ ربکم فالق الاصباح۔ پچھلی آیت میں ذکر نظام ارضی کا تھا۔ اب ذکر نظام فلکی کا ہے۔ (آیت) ” جعل۔۔۔ حسبانا “۔ رات کی سکونی کیفیت، سورج اور چاند کی نبی تلی گردش، اس کی شرح رفتار اور مقدار یہ سب اسی قادر مطلق و حکیم برحق کے دست قدرت میں ہیں۔ جو ہر ہر شعبہ موجودات کا اکیلا حاکم وناظم ہے، اس کے حضور میں کسی سورج دیوتا اور کسی چندر ماں اور کسی رات کی دیوی کا وجود فرض کرنا خرافت کی انتہا ہے۔ (آیت) ” حسبانا “۔ یعنی مصالح خلق کے بالکل متناسب ایسے حساب کے مطابق جس میں نہ کمی کا احتمال ہے نہ نازیادتی کا۔ ای بحساب یتعلق بہ مصالح العباد (قرطبی) ای جعل اللہ سیر الشمس والقمر بحساب لایزید ولاینقص (قرطبی) (آیت) ” ذلک “۔ یعنی اجرام سماوی کی یہ جکڑ بند اور ان کی تسخیر، اشارۃ الی جعلھما کذلک (روح)
Top