Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 92
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ
وَهٰذَا : اور یہ كِتٰبٌ : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی مُّصَدِّقُ : تصدیق کرنے والی الَّذِيْ : جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اپنے سے پہلی (کتابیں) وَلِتُنْذِرَ : اور تاکہ تم ڈراؤ اُمَّ الْقُرٰي : اہل مکہ وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے ارد گرد وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَهُمْ : اور وہ عَلٰي : پر (کی) صَلَاتِهِمْ : اپنی نماز يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرتے ہیں
اور یہی کتاب ہے کہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے، برکت والی ہے تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو اس سے پہلے ہوچکی ہیں تاکہ آپ ڈرائیں ام القری اور اس کے گرد والوں کو،135 ۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس (کتاب) پر بھی ایمان لے آتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی حفاظت رکھنے والے ہیں،136 ۔
135 ۔ یعنی ساری دنیا کو، (آیت) ” مبرک “۔ پہلی صفت قرآن مجید کی یہ ارشاد ہوئی کہ یہ ایک مبارک کتاب ہے۔ اس سے خلق جتنا چاہے۔ بہ قدر اپنے ظرف وہمت کے استفادہ کرے۔ ای کثیر المنافع والفوائد (کشاف) قال اھل المعانی کتاب مبارک ای کثیر خیرہ دائم برکتہ ومنفعتہ یشر بالثواب والمغفرۃ ویزجرعن القبیح والمعصیۃ (کبیر) فخررازی (رح) اس آیت کے ذیل میں جو اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہیں وہ بجنسہ نقل ہونے کے قابل ہے۔ یقول مصنف ھذا الکتاب محمد بن عمر الرازی وانا قدنقلت انواعا من العلوم النقلیۃ والعقلیۃ فلم یحصل لی بسبب شیء من العلوم من انواع السعادات فی الدین والدنیا مثل ما حصل بسبب خدمۃ ھذا العلم (کبیر) (اس کتاب کا مصنف محمد بن عمر رازی (رح) کہتا ہے کہ میں نے بہت سے علوم حاصل کیے نقلی بھی اور عقلی بھی لیکن کسی علم سے بھی مجھے دین ودنیا میں وہ خیر وسعادت نہ محسوس ہوئی جو اس علم (قرآن) کی خدمت سے حاصل ہوئی) (آیت) ” مصدق الذی بین یدیہ “۔ دوسری صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ اپنے سے سابق ہر وحی اور ہر رسالت کی تصدیق کرتی ہے۔ (آیت) ” ولتنذر ام القری “۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اہل یہاں محذوف ہے اور (آیت) ” ام القری “۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سے اشارہ شہر مکہ کی جانب ہے۔ اتفقوا علی ان ھھنا محذوفا والتقدیر ولتنذر اھل القری واتفقوا علی ان ام القریھی مکۃ (کبیر) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مکہ کا یہ نام (آیت) ” ام القری “۔ (جس کے لفظی معنی بستیوں کے مرکز کے ہیں) پڑا کیوں ؟ بعض نے کہا کہ اس لئے کہ ساری اقلیموں کی روحانی پرورش کا سامان یہیں سے ہوتا ہے بعض نے کہا کہ اس لئے کہ قدیم جغرافیہ کے لحاظ سے یہ زمین کے عین وسط میں واقع تھا۔ کسی نے کہا اس لیے کہ اس وقت حجاز خصوصا اس کا یہ شہر دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا، یعنی اس کے ایک بازو میں مصری، رومی، یونانی تہذیب تھی، اور دوسرے بازو میں کلدانی، ایرانی اور ہندی تمدن۔ کسی نے کہا کہ اس لیے کہ آج بھی دنیا کے تین بڑے براعظموں ایشیا، افریقہ، یورپ کا سر راہہ عین ساحل حجاز سے پھوٹتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ سب کے سب اسباب صحیح ہوں۔ (آیت) ” ومن حولھا “۔ جب مکہ معظمہ ناف زمین یا مرکزبلاد قرار پایا تو اس کے ہر طرف آبادی جہاں تک بھی پھیلی ہوگی سب من حولھاہی کے تحت میں آئے گی۔ یعنی جمیع الافاق (قرطبی) ای اھل الشرق والغرب (مدارک وبیضاوی) یتاول جمیع البلاد والقری المحیطۃ بھا فیدخل فیہ جمیع بلاد العالم (کبیر) من اھل المدر والوبرفی المشارق والمغارب لعموم بعثتہ ﷺ (روح) 136 ۔ یعنی اعتقاد صحیح کے ساتھ ساتھ عمل صحیح میں بھی بختہ ومستقیم ہوجاتے ہیں۔ صلوۃ یہاں بہ طور جملہ عبادات کے قائم مقام کے ہے، محققین نے کہا ہے کہ آیت سے صلوۃ کی انتہائی اہمیت واشرفیت ظاہر ہوتی ہے کہ اسے گویا ایمان کے ہم رتبہ قرار دے دیا گیا ہے۔ المقصود منہ التنبیہ علی ان الصلوۃ اشرف العبادات بعدالایمان باللہ واعظمھا خطرا الاتری انہ لم یقع اسم الایمان علی شیء من العبادات الظاہرۃ الا علی الصلوۃ (کبیر) (آیت) ” والذین یؤمنون بالاخرۃ یؤمنون بہ “۔ بہ، کی ضمیر قرآن مجید کی جانب ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ خوف آخرت رکھتے ہیں وہ مؤاخذۂ اخروی کے ڈر سے پوری ذمہ داری اور اہتمام کے ساتھ حق کی تلاش وطلب میں رہتے ہیں۔ اور اس لیے قرآن کی بھی صداقت وحقانیت کے قائل ہوجاتے ہیں۔ ذلک ان اصل الدین خوف العاقبۃ فمن لم یزل بہ الخوف حتی یؤمن (کشاف) الذی یؤمن بالاخرۃ ھو الذی بالوعد والوعید والثواب والعقاب ومن کان کذلک فانہ یعظم رغبتہ فی تحصیل الثواب ورھبتہ عن حلول العقاب ویبالغ فی النظر والتامل فی دلائل التوحید والنبوۃ فیصل الی العلم والایمان (کبیر)
Top