Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
تو یوں ہوا کہ جب رات ابراہیم پر چھاگئی، انہوں نے ایک تارہ کو دیکھا، بولے یہی میرا پروردگار ہے، لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو بولے میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا،115 ۔
115 ۔ (اور نہ ایسوں کی الوہیت ومعبودیت کا قائل ہوسکتا ہوں) (آیت) ” فلما “۔ یہ سارا مکالمہ جو آگے نقل ہورہا ہے ضروری نہیں کہ سب ایک ہی وقت میں ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے مختلف اجزاء مختلف اوقات میں ہوئے ہوں۔ (آیت) ” فلما “۔ ہوسکتا ہے کہ آیت ما سبق کی تفصیل وتشریح ہی ہو۔ (آیت) ” جن علیہ الیل “۔ یہ کسی موقع پر کسی رات میں ہوا ہوگا۔ (آیت) ” راکوکبا “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ملک وقوم کی ستارہ پرستی آفتاب پرستی کے لئے ملاحظہ ہوں راقم کی انگریزی تفسیر کے حواشی (آیت) ” کو کبا “۔ لفظی معنی کے اعتبار سے کوئی بھی ستارہ مراد ہوسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی خاص طور پر اہم و روشن ہی ستارہ ہوگا، موجودہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ قدیم جاہلی قوموں میں سب سے زیادہ زوروں سے پرستش ان دوستاروں مشتری Jupitor اور زہرہ Venus کی رہی ہے۔ ادھر ہمارے مفسرین کی صفائے قلب کا اثر دیکھئے کہ ان کے قلم سے بھی علی العموم انہیں دونوں ستاروں کے نام نکلے ہیں ! الکوکب الزھرۃ قالہ ابن عباس وقتادہ (بحر) او المشتری قالہ مجاھد والسدی (بحر) والمراد بالکوکب فی ماروی عن ابن عباس المشتری (روح) عن قتادہ انہ قال ذکرلنا انہ الزھرۃ (روح) (آیت) ” قال ھذا ربی “۔ آپ نے یہ اپنی ستارہ پرست قوم کو دکھا کر اور سنا کر ان پر حجت الزامی قائم کرنے کے لئے کہا۔۔۔ مخالف پر حجت الزامی قائم کرنا تبلیغ ومناظرۂ علمی کے معمولات میں سے ہے، بلکہ عام گفتگو میں دستور ہے کہ دوسرے کے خیال کو اپنی زبان سے بجنسہ دہرا دیتے ہیں اور سیاق و لہجہ سے ہمیشہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مخاطب کا قول و خیال نقل ہورہا ہے بغیر اس کے کہ متکلم اس کی تصریح کرے، اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہر زبان میں یہ اسلوب بیان عام ہے، خود قرآن مجید ہی میں ایک جگہ قیامت کے بیان میں ہے (آیت) ” این شرکآء ی “ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ آج میرے شریک کہاں ہیں ؟ اس کا مطلب بالکل واضح وظاہر ہے کہ وہ کہاں ہیں جو تمہارے زعم وپندار میں میرے شریک تھے، یہ مطلب کوئی احمق سے احمق بھی نہیں لیتا کہ حق تعالیٰ خود اپنے شریکوں کا وجود تسلیم کرکے انہیں بلا رہے ہیں۔ یرید ان یستدرجھم بھذا القول ویعرفھم خطأھم وجھلھم فی تعظیمھم شان النجوم وفضاحھم علی الامور (ابن قتیبہ) ماجری بینہ وبین قومہ کان احتجاجا ولا اعتقادا (ابن العربی) تأول بعضھم ذلک علی اضمار القول وکثیرا ما یضمر تقدیرہ قال یقولون ھذا ربی علی حکایۃ قولھم و توضیح فسادہ ممایظھر علیہ من سمات الحدوث ولا یحتاج ھذا الی الاضمار بل یصح ان یکون ھذا کقولہ تعالیٰ این شرکائی ای علی زعمکم (بحر) قال الزجاج الجواب عندی انہ قال ھذا ربی علی قولکم ونظیر ھذا قولہ تعالیٰ این شرکائی والمعنی شرکاء ی علی قولکم (قرطبی) المقصود منہ حکایۃ قول الخصم ثم ذکر علی عقبیہ ما یدل علی فسادہ (کبیر) معناہ ھذا ربی فی زعمکم واعتقادکم ونظیرہ قال تعالیٰ وانظرالی الھک الذی ظلت علیہ عاکفا (کبیر) (آیت) ” لا احب الافلین “۔ آپ نفی ان کی محبوبیت محض کی نہیں، محبوبیت معبودی کی کررہے ہیں، آپ فرما رہے ہیں کہ جو ہستیاں خود ہی غیر ثابت اور تغیر پذیر ہیں، ان کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ عزت ووقعت کی کیسے ہوسکتی ہے ؟ عدم محبت سیاق عبارت میں صاف عدم معبودیت کے مرادف ہے۔ کنی بعدم المحبۃ عدم العبادۃ لانہ یلزم من نفیھا نفیھا بالطریق الاولی (روح) لا احب عبادۃ الارباب المتغیرین عن حال الی حال (کشاف) سرآمد موحدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ استدلال کہ جو تاثر پذیر ہے وہ کسی کا محکوم ومسخر ہے، وہ اس قابل کب ہے کہ خدا مانا جائے، ظاہر ہے کہ خود اپنے لیے نہ تھا، بلکہ اپنے مشرک ہم قوموں کو قائل کرنے کے لیے تھا۔
Top